سوال
السلام علیکم
میرا سوال یہ ہے کہ غامدی صاحب کیاسلام کے سیاسی نظام کے متعلق کیا راۓ ہے؟جتنا مجھے معلوم ہے اس کے مطابق غامدی صاحب سیاسی اسلام جیسے کسی تصور کو نہیں مانتے -اگر یہ بات درست ہے تو میرے دو سوال ہے:
- 1.مجھے بحیثیت ایک عام آدمی ایسا لگتا ہے کہ اسلام کا سیاسی نظام اس وقت مسلمانوں کی ضرورت ہے – اگر ہم علمی بحث میں نہ بھی جائیں اور محض کامن سینس کی بنیاد پر بھی دیکھیں تو پوری دنیا میں اس وقت مسلمانوں کا جو حال ہے وہ شاید نہ ہوتا اگر ایک عالمی اسلامی ریاست موجود ہوتی- اور کئی احادیث میں بھی یہ آیا ہے کہ خلیفہ ڈھال (Shield) ہے – اس پر کیا کہیں گے؟
- 2.ایک زمانے میں غامدی صاحب بھی اسلامی ریاست کے حامی تھے، پھر کیا وجہ ہوئی کہ ان کی راۓ میں 180 ڈگری تبدیلی آئی؟ اس وقت وہ کیوں ریاست کے حق میں تھے اور اب نہیں ہیں؟
جزاک الله
جواب
و علیکم السلام
آپ نے اسلام کے سیاسی نظام کےمتعلق غامدی صاحب کی راۓدریافت کی ہے – اس ضمن میں آپ سے گزارش ہے کہ آپ ان کی کتاب میزان میں ‘قانون سیاست ‘ کے باب کا مطالعہ فرمائیں -اس میں انہوں نے اپنے فہم کے مطابق سیاست کے بارے میں اسلام کی ہدایاتکی وضاحت فرمائی ہے-سیاسی اسلام ایک جدید اصطلاح ہے اور اس کےمخصوص معانی ہیں جن سے غامدی صاحب کا اصولی اختلاف ہے -اس مذکورہ تحریر کے علاوہ آپ ان کی کتاب مقامات میں ‘اسلام اور ریاست’ کے موضوع سے متعلق ان کے کئی مضامین کا مطالعہ بھی کر سکتے ہیں- ان کے بارے میں اگر آپ کے کچھ مخصوص اشکالات ہوں تو ان کے بارے میں آپسوال پوچھ سکتے ہیں- اب آپ کے دو سوالات کو دیکھتے ہیں:
- 1.آپ کی راۓ کا اگر تجزیہ کیا جاۓ تو میرے فہم کے مطابق یہ کمزور معلوم ہوتی ہے- مسلمانوں کے علاوہ دنیا میں مختلف شناخت رکھنے والی اقوام رہتی ہیں اور ان میں کئی ادیان کے پیروکار ہیں-مثلاً مغربی قومی ریاستوںکو دیکھئے- وہاں کی اکثریت مسیحی ہے- لیکن الگ الگ ممالک ہونے کے باوجود ہم سے نسبتاً بہت زیادہ بہتر حالت میں ہیں -اس سے معلوم ہوا کہ ایک ہی عالمی ریاست قومی خوشحالی کے لئے ضروری نہیں ہے – دراصل ہمارے سب سے بڑے مسائل تعلیمی پسماندگی ، تحقیق دشمنی ،اخلاقی بحران ، حقیقی جمہوری کلچر کا ناپید ہونا ، اختلاف کے بارے میں عدم برداشت کا رویہ وغیرہ ہیں – اگر ہماری کوئی عالمی ریاست بھی ہو اور اس میں یہی مسائل ہوں تب بھی ہماری حالت وہی ہونا تھی جو اس وقت ہے – اس لیے آپ کی راۓ درست معلوم نہیں ہوتی- اس کے بعد آپ نے جس روایت کی جانب اشارہ فرمایا ہے ، اس میں خلیفہ کا لفظ نہیں ، امام کا لفظ آیا ہے اور اس سے مرد حکمران ہوتا ہے – پوری روایت دراصل جہاد کے بارے میں ایک ہدایت دے رہی ہے – روایت کے الفاظ یوں ہیں:إنما الإمام جنة يقاتل من ورائه ويتقى به.﴿ بخاری، رقم ۲۹۵۷﴾
’’مسلمانوں کا حکمران اُن کی سپر ہے ، قتال اُسی کے پیچھے رہ کر کیا جاتا ہے اور لوگ اپنے لیے اُسی کی آڑ پکڑتے ہیں ۔‘‘
اس روایت میں جہاد کے لیے ایک باقاعدہ حکومت یا نظم اجتماعی کو شرط بتایا گیا ہے – اگر اس روایت کو اس معنی میں بھی لیا جاۓ کہ یہ حکمران کی ضرورت بتا رہی ہے تب بھی اس روایت میں ایک ہی عالمی حکومت یا ایک ہی حکمران کی بات کم از کم میرے فہم کی حد تک نہیں کہی گئی ہے- - 2.آپ کے دوسرے سوال کے بارے میں عرض ہے کہ کسی محقق یا صاحب علم کی راۓ میں تبدیلی آنا کوئی عجیب بات نہیں ہے – ایک صاحب علم اگر بر بناۓ دلائل اپنی راۓ تبدیل کرتا ہے تو ہمیں اس شخص پر اعتراض کرنے کے بجاۓ ان دلائل کا تجزیہ کرنا چاہیے -اور یہ بتانا چاہیے کہ ان دلائل میں کیا کمزوری ہے؟ریاست کے بارے میں جو نقطہ نظر غامدی صاحب نے ابتداء میں اختیار فرمایا تھا ، دلائل سے اس کی غلطی واضح ہو جانے کے بعد انہوں نے وہ نقطہ نظر تبدیل کر لیا – وہ دلائل انہوں نے اپنے مضامین میں بیان کر دیے ہیں- آپ کو اگر ان کے بارے میں کوئی اشکال ہے تو آپ پوچھ سکتے ہیں-
مجیب: Mushafiq Sultan
اشاعت اول: 2017-03-15