سوال
سعودیہ میں لوگ ہر دفعہ مسجد میں داخل ہونے پر دو رکعت تحيّۃ المسجد کا بہت اہتمام کرتے ہیں ، جبکہ ہمارے ہاں ایسا کوئی اہتمام نہیں پایا جاتا ، اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب
مسجد میں آنے کے بعد دو نفل پڑ ھنے کی تاکید بعض روایات میں ملتی ہے ۔ مثلاً ایک روایت میں بیان ہوا ہے :
’’ابو قتادہ سلمی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے جو شخص مسجد میں داخل ہو تواُسے چاہیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑ ھ لیا کرے۔‘‘ (بخاری ، رقم433 )
تاہم یہ آداب کی نوعیت کی ایک چیز ہے۔ اس کا اہتمام کر لیا جائے تو بڑ ی اچھی بات ہے۔ جہاں تک برِصغیر کے لوگوں کا تعلق ہے تو وہ زیادہ تر احناف کے نقطۂ نظر کی پیروی کرتے ہیں اور اس نقطۂ نظر میں زیادہ اہمیت بعض دیگر نوافل کو دی جاتی ہے جو نما زسے قبل اور بعد میں ادا کیے جاتے ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے:
فرض نمازوں سے پہلے کے نوافل
فجر سے پہلے
فجر سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم دو ہلکی رکعتیں پڑ ھ کر نماز کے لیے نکلتے تھے ۔ (بخاری ، رقم 618،619)
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ آپ یہ رکعتیں فجر کا وقت ہوتے ہی پڑ ھ لیتے تھے ۔ (مسلم ، رقم 1680)
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے آپ کو اِن سے زیادہ کسی چیز پر مداومت کرتے نہیں دیکھا ۔ (بخاری ، رقم 1169)
اُنہی کا بیان ہے کہ آپ نے فرمایا : فجر کی یہ رکعتیں دنیا اور اُس کی ہر چیز سے بہتر ہیں ۔ (مسلم ، رقم 1688)
ظہر سے پہلے
ظہر سے پہلے آپ کبھی دو ا ور کبھی چار رکعتیں پڑ ھتے تھے۔ (بخاری ، رقم 1180۔مسلم، رقم 1699)
مغرب سے پہلے
مغرب سے پہلے غالباً آپ نے خود توکوئی نماز نہیں پڑ ھی ، لیکن لوگوں کو ترغیب دی ہے کہ اللہ توفیق دے تو وہ اِس وقت بھی دو رکعت نماز پڑ ھیں۔ (بخاری ، رقم 1183۔ ابو داؤد ، رقم 1281)
چنانچہ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ زمانۂ رسالت میں صحا بۂ کرام بالعموم اِس کا اہتمام کرتے تھے ۔ (بخاری ، رقم 1184۔مسلم ، رقم 1938)
فرض نمازوں کے بعد
ظہر کے بعد
ظہر کے بعد آپ کا معمول تھا کہ نماز سے فارغ ہوکر گھر آتے تو دو رکعتیں پڑ ھتے ۔ (بخاری ، رقم 1180۔مسلم، 1699)
ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑ ھنے کی فضیلت بھی روایتوں میں بیان ہوئی ہے ۔ (ابو داؤد ، رقم 1269)
مغرب کے بعد
مغرب کے بعد بھی آپ کا طریقہ یہ تھا کہ نماز سے فارغ ہوکر گھر آتے تو دو رکعتیں پڑ ھتے ۔ (بخاری ، رقم 1180۔ مسلم، 1699)
عشا کے بعد
عشا کے بعد بھی آپ کا معمول یہ تھا کہ نماز سے فارغ ہوکر گھر آتے تو دو رکعتیں پڑ ھتے ۔(بخاری ، رقم 1180۔ مسلم، 1699)
جمعہ کے بعد
جمعہ کی نماز کے بعد بھی آپ کا عام طریقہ گھر میں آ کر دو رکعت پڑ ھنے ہی کا تھا۔ (بخاری ، رقم 895۔مسلم ، رقم 882)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ لوگوں کو آپ نے جمعہ کے بعد چار رکعتیں پڑ ھنے کے لیے بھی کہا ہے ۔
(مسلم ، رقم 881)
ان سارے نوافل کا ذکر صحیح روایات میں آیا ہے ، مگر غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نوافل عموماً گھر سے پڑھ کر مسجد کے لیے نکلتے یا مسجد سے گھر لوٹ کر پڑ ھتے تھے ۔ جبکہ ہمارے ہاں چونکہ ان نوافل کو عموماًمسجد جا کر پڑھا جاتا ہے اس لیے اُن دو نوافل کے برعکس جن کا ذکر شروع میں ہوا، دیگر نوافل کی زیادہ اہمیت ہوگئی ہے ۔اصل بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ یہ سب نوافل ہیں ، اس لیے ان کاترک یا ادا کرناکوئی ایسا معاملہ نہیں جو کسی نزاع کا باعث ہو۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-02-10