میاں بیوی کے تعلقات

15

سوال

میاں اور بیوی کے تعلق کے حوالے سے میرا سوال یہ ہے کہ اُن کے تعلق کی حدود کیا ہیں اور وہ کس انتہا تک جا سکتے ہیں؟ مثلاًکیا وہ بغیر لباس بالکل برہنہ ہوتے ہوئے ایک ساتھ غسل کرسکتے اور شاور لے سکتے ہیں ؟

جواب

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے تعلق کو ‘لباس ‘کے ایک بہت خوبصورت استعارے سے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

”تمھاری بیویاں تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو‘‘ ، (بقرہ۱۸۷ :۲)

لباس کی یہ تعبیر جہاں اور کئی چیزں کو واضح کرتی ہے وہیں یہ بھی بیان کرتی ہے کہ خلوت میں میاں بیوی کے درمیان قرب و اتصال کی وہی نوعیت ہوتی ہے جو انسان کی اپنے لباس کے ساتھ ہوتی ہے ۔ انسان اور اس کے لباس کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح میاں بیوی کا بھی معاملہ ہے ۔ وہ بالکل بے پردہ اور بے لباس ہوکر ایک دوسرے کے سامنے آ سکتے ہیں اس میں کوئی قباحت نہیں ۔

جہاں تک میاں بیوی کے درمیان جنسی تعلق کا سوال ہے تو یہ ایک فطری عمل ہے جس کی تربیت انسان دیگر فطری چیزوں کی طرح اپنی جبلتوں سے حاصل کرتا ہے ۔ دین اپنے طور پر جنسی تعلق کا کوئی طریقہ بتاتا ہے اور نہ یہ اس کا دائرہ ہے ۔اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے انسان پرپابندیاں لگانے کے بجائے ، انہیں پابندیوں سے آزاد کیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

”عورتیں تمھارے لیے بمنزلہ کھیتی ہیں تواپنی کھیتی میں جس طرح چاہے آؤ، اوراپنے لیے آگے بڑھاؤ ، اوراللہ سے ڈرتے رہو، اور جان رکھوکہ تمھیں اس سے لازماًملنا ہے اورایمان والوں کو خوشخبری دے دو۔‘‘ ، (بقرہ۲۲۳ :۲)

صاحبِ تدبر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کی شرح و تفسیر میں لکھتے ہیں :

”عورتوں کے لیے کھیتی کے استعارہ میں ایک سیدھاساداپہلوتویہ ہے کہ جس طرح کھیتی کے لیے قدرت کابنایا ہوایہ ضابطہ ہے کہ تخم ریزی ٹھیک موسم میں اورمناسب وقت پرکی جاتی ہے ، نیزبیج کھیت ہی میں ڈالے جاتے ہیں کھیت سے باہرنہیں پھینکے جاتے ، کوئی کسان اس ضابطے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، اسی طرح عورت کے لیے فطرت کایہ ضابطہ ہے کہ ایامِ ما ہواری کے زمانے میں یا کسی غیرمحل میں اس سے قضائے شہوت نہ کی جائے اس لیے کے حیض کازمانہ عورت کی غیرآمادگی کا زمانہ ہوتا ہے ، اورغیرمحل میں مباشرت باعثِ اذیت واضاعت ہے ۔اس وجہ سے کسی سلیم الفطرت انسان کے لیے اس کا ارتکاب جائزنہیں ۔اپنے اس پہلوسے یہ آیت اوپروالی آیت کی گویاتوضیح مزیدہوئی۔

ہرشخص جانتا ہے کہ ازدواجی زندگی کاسارا سکون وسرورفریقین کے اس اطمینان میں ہے کہ ان کی خلوت کی آزادیوں پرفطرت کے چندموٹے موٹے قیودکے سواکوئی قید، کوئی پابندی اورکوئی نگرانی نہیں ہے ۔آزادی کے اس احساس میں بڑ اکیف اوربڑ انشہ ہے ۔انسان جب اپنے اس عیش وسرور کے با غ میں داخل ہوتا ہے توقدرت چاہتی ہے کہ وہ اپنے اس نشے سے سرشارہولیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی اس کے سامنے قدرت نے رکھ دی ہے کہ یہ کوئی جنگل نہیں بلکہ اس کا اپناباغ ہے اوریہ کوئی ویرانہ نہیں بلکہ اس کی اپنی کھیتی ہے ۔اس وجہ سے وہ اس میں آنے کوتوسوبارآئے اورجس شان، جس آن، جس سمت اورجس پہلوسے چاہے آئے لیکن اس باغ کاباغ ہونا اورکھیتی کاکھیتی ہونا یاد رکھے ، اس کے کسی آنے میں بھی اس حقیقت سے غفلت نہ ہو۔

اپنی کھیتی سے متعلق ہرکسان کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس سے اسے برابرنہایت اچھی فصل حاصل ہوتی رہے ، مناسب وقت پر اس میں ہل چلتے رہیں ، ضرورت کے مطابق اس کوکھاداورپانی ملتا رہے ، موسمی آفتوں سے وہ محفوظ رہے ، آئندوروند، چرندوپرنداوردشمن اور چوراس کونقصان نہ پہنچا سکیں ، جب وہ اس کودیکھے تواس کے طراوت وشادابی اس کوخوش کر دے اورجب وقت آئے تو وہ اپنے پھلوں اور پھولوں سے اس کادامن بھردے ۔‘‘، (تدبرقرآن۱۵۲۷۔۵۲۸)

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-23

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading