سوال
لوحِ قرآنی کا کیا تصور ہے اور اس سے کیا مرادہے؟
کسی نے مجھے ’ الٰم‘کا یہ مطلب بتایا تھا کہ الف سے مراد اللہ تعالیٰ ہے ، میم سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور لام کا مطلب نہیں ہے یعنی مطلب یہ ہوا کہ ’’یہ محمد نہیں ہیں جو بول رہے ہیں ، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ ہے جو محمد میں سے کلام فرما رہا ہے ۔‘‘ اس کی دلیل اس نے یہ دی کہ اللہ فرماتا ہے کہ جب تم میرے ہوجاتے ہو تو میں تمہارا ہو جاتا ہوں ، میں تمہارے ہاتھ بن جاتا ہوں اور میں تمہاری زبان بن جاتا ہوں ۔ اس پر آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب
۱۔ لوحِ قرآنی کا کوئی تصور دین میں نہیں پایا جاتا ہے ۔ البتہ ہمارے ہاں لوحِ قرآنی کے نام سے ایک نقش عام طور پر ضرور ملتا ہے ۔ اس میں قرآنِ کریم میں آنے والے حروف مقطعات تحریر ہوتے ہیں ۔لوگوں کی بنائی ہوئی اس لوحِ قرآنی کے متعلق بہت سی باتیں کہی جاتیں ہیں کہ اس سے مشکلات حل ہوتی ہیں ، رزق بڑ ھتا ہے وغیرہ۔ان باتوں کی کوئی اصل دین میں نہیں پائی جاتی۔
۲۔ آپ کے دوسرے سوال کا تعلق بھی پہلے ہی سے ہے ۔ قرآن کریم کی بہت سی سورتیں کچھ ایسے حروف سے شروع ہوتی ہیں جن کو الگ الگ کر کے پڑ ھا جاتا ہے ۔ جیسے سورۂ بقرہ ’الم‘ سے شروع ہوتی ہے ۔ اسے الف لام میم پڑھیں گے نہ کہ ’اَلَمْ‘۔ ان حروف کو الگ کر کے پڑ ھے جانے کی وجہ ہی سے ان کو حروفِ مقطعات کہتے ہیں ۔
اہل علم نے ان کے معنی کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے ، لیکن ان کے بارے میں کوئی متعین بات نہیں کی جا سکتی ہے۔ وہ بات جو آپ نے اپنے سوال میں بیان فرمائی ہے وہ بھی اپنی کوئی اصل نہیں رکھتی۔ یہ محض ایک اندازہ ہے ۔ ہمارے اساتذہ کی رائے ہے کہ یہ دراصل قرآنِ کریم کی سورتوں کے نام ہیں ۔اس بات کو امام امین احسن اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیر تدبر قرآن میں سورۂ بقرہ کی تفسیر میں تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے ۔حروفِ مقطعات کے معنی کے بارے میں اصلاحی صاحب نے اسی مقام پر بحث کرتے ہوئے اپنے استاد امام حمید الدین فراہی کی رائے کو نقل کیا ہے۔ ہم آپ کی دلچسپی کے لیے اسے ذیل میں بیان کر دیتے ہیں:
’’جو لوگ عربی رسم الخط کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ عربی زبان کے حروف عبرانی سے لیے گئے ہیں اورعبرانی کے یہ حروف ان حروف سے ماخوذہیں جوعربِ قدیم میں رائج تھے ۔عربِ قدیم کے ان حروف کے متعلق استاذامامؒ کی تحقیق یہ ہے کہ یہ انگریزی اورہندی کے حروف کی طرح صرف آواز ہی نہیں بتاتے تھے ، بلکہ یہ چینی زبان کے حروف کی طرح معانی اور اشیا پربھی دلیل ہوتے تھے اورعموماً انہی کی صورت اورہیئت پرلکھے بھی جاتے تھے ۔مولاناؒکی تحقیق یہ ہے کہ یہی حروف ہیں جوقدیم مصریوں نے اخذکیے اوراپنے تصورات کے مطابق ان میں ترمیم اوراصلاح کر کے ان کواس خطِ تمثالی کی شکل دی جس کے آثاراہرام مصرکے کتبات میں موجودہیں ۔
ان حروف کے معانی کاعلم اب اگرچہ مٹ چکا ہے تاہم بعض حروف کے معنی اب بھی معلوم ہیں اوران کے لکھنے کے ڈھنگ میں بھی ان کی قدیم شکل کی کچھ نہ کچھ جھلک پائی جاتی ہے ۔مثلاً’’الف‘‘ کے متعلق معلوم ہے کہ وہ گائے کے معنی بتاتا تھا اورگائے کے سرکی صورت ہی پرلکھا جاتا تھا۔’’ب‘‘کو عبرانی میں بیت کہتے بھی ہیں اوراس کے معنی بھی ’’بیت‘‘(گھر)کے ہیں ۔’’ج‘‘کاعبرانی تلفظ جیمل ہے جس کے معنی جمل(اونٹ)کے ہیں ۔’’ط‘‘سانپ کے معنی میں آتا تھا اورلکھابھی کچھ سانپ ہی کی شکل پرجاتا تھا۔’’م‘‘پانی کی لہرپردلیل ہوتا تھا اوراس کی شکل بھی لہرسے ملتی جلتی بنائی جاتی تھی۔
مولانا اپنے نظریہ کی تائیدمیں سورۂ’’ن‘‘کوپیش کرتے ہیں ۔حرف’’نون‘‘اب بھی اپنے قدیم معنی ہی میں بولا جاتا ہے ۔اس کے معنی مچھلی کے ہیں اورجوسورہ اس نام سے موسوم ہوئی ہے اس میں حضرت یونس علیہ السلام کاذکرصاحب الحوت (مچھلی والے )کے نام سے آیا ہے ۔مولانا اس نام کوپیش کر کے فرماتے ہیں کہ اس سے ذہن قدرتی طورپراس طرف جاتا ہے کہ اس سورہ کانام ’’نون‘‘(ن) اسی وجہ سے رکھا گیا ہے کہ اس میں صاحب الحوت (یونس علیہ السلام ) کا واقعہ بیان ہوا ہے جن کو مچھلی نے نگل لیا تھا۔ پھر کیا عجب ہے کہ بعض دوسری سورتوں کے شروع میں جوحروف آئے ہیں وہ بھی اپنے قدیم معانی اورسورتوں کے مضامین کے درمیان کسی مناسبت ہی کی بناپرآئے ہوں ۔
قرآن مجیدکی بعض اورسورتوں کے ناموں سے بھی مولاناکے اس نظریہ کی تائیدہوتی ہے ۔مثلاً حرف ’’ط‘‘کے معنی، جیساکہ اوپرذکرہو چکا ہے ، سانپ کے تھے اوراس کے لکھنے کی ہیئت بھی سانپ کی ہیئت سے ملتی جلتی ہوتی تھی ۔اب قرآن میں سورہ ’طہٰ ‘ کو دیکھیے جو’’ط‘‘سے شروع ہوتی ہے ۔اس میں ایک مختصرتمہیدکے بعدحضرت موسیٰ علیہ السلام اوران کی لٹھیاکے سانپ بن جانے کاقصہ بیان ہوتا ہے ۔ اسی طرح طسم، طس وغیرہ بھی ’’ط‘‘سے شروع ہوتی ہیں اوران میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لٹھیا کے سانپ کی شکل اختیارکر لینے کامعجزہ مذکورہے ۔
’’الف‘‘کے متعلق ہم بیان کر چکے ہیں یہ گائے کے سرکی ہیئت پرلکھابھی جاتا تھا اورگائے کے معنی بتاتا بھی تھا۔ اس کے دوسرے معنی اللہ واحدکے ہوتے تھے ۔اب قرآن مجیدمیں دیکھیے تومعلوم ہو گاکہ سورۂ بقرہ میں جس کانام الف سے شروع ہوتا ہے ، گائے کے ذبح کاقصہ بیان ہوا ہے ۔دوسری سورتیں جن کے نام الف سے شروع ہوئے ہیں توحیدکے مضمون میں مشترک نظرآتی ہیں ۔یہ مضمون ان میں خاص اہتمام کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔ان ناموں کایہ پہلوبھی خاص طورپرقابل لحاظ ہے کہ جن سورتوں کے نام ملتے جلتے سے ہیں ان کے مضامین بھی ملتے جلتے ہیں بلکہ بعض سورتوں میں تو اسلوب بیان تک ملتا جلتا ہے ۔‘‘ (تدبر1/83۔85)
امید ہے کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہو گا۔آپ اس مسئلے کو مزید سمجھنا چاہتے ہیں تو یہ پوری بحث تدبر قرآن میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-28