سوال
ذیل کی دو صورتوں میں اسلام کا مؤقف بتائیے :
1) والدین کے فوت ہوجانے کے بعد بڑ ے بہن بھائی اگر وراثت کی تقسیم میں ٹال مٹول سے کام لیں اور اس معاملے کو مؤخر کرتے رہیں ، تو اسلام انہیں کس نظر سے دیکھتا ہے؟
2) تقسیمِ وراثت کے موقع پر اگر بڑ ی بہن بڑ ے بھائی کا ساتھ دے اس طرح کہ پہلے تقسیم کو مؤخر کرنے میں ان کی ہاں میں ہاں ملائے اور تقسیم کے موقع پر اپنا حصہ اسے دے دے ، حالاں کہ وہ جانتی ہے کہ بڑ ا بھائی ا س کا ضرورت مند نہیں ہے ، تو ازروئے اسلام یہ طرزِعمل کیسا ہے؟
جواب
مرنے والے کے انتقال کے بعد اس کے مال کی تقسیم کو اللہ تعالیٰ نے خود موضوع بنایا ہے اور تمام وارثوں کے حصے تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں ۔اس کے بعد یہ بیان کیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ۔جو ان حدود سے تجاوز کرے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور وہاں اسے ذلت آمیز عذاب دیا جائے گا(نساء 4: 14)۔ قرآن مجید کی اتنی سخت وعید کے بعد کسی مسلمان کو وراثت کے معاملات میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے اور جس طرح تمام لوگوں کو ان کے مقررہ حصے ملنے چاہییں اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ بلاتاخیر اموال وراثت کو تقسیم کر دیا جائے ۔ ایک یا دو لوگ وراثت پر قابض ہوجائیں تو وہ اس وعید کے مصداق ہوں گے ۔البتہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مال کی فوری تقسیم تو ممکن ہے لیکن گھروں وغیرہ کی تقسیم فروخت کے بعد ہی ہو گی۔ اس میں کچھ نہ کچھ وقت ضرور دینا چاہیے ۔اس وقت کو باہمی رضامندی اور لوگوں کے مسائل کا لحاظ کرتے ہوئے طے کیا جا سکتا ہے ۔
اسی طرح یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ وارثوں میں سے کوئی بھی اپنا حصہ اپنی خوشی سے کسی دوسرے کو دے سکتا ہے۔ دین نہ اس کی ممانعت کرتا ہے اور نہ کسی کے ضرورت مند ہونے کی شرط لگاتا ہے ۔اس لیے آپ کی ہمشیرہ اگر خوشی سے بڑ ے بھائی کو اپنا حصہ دے رہی ہیں تو چاہے وہ ضرورت مند ہو یا نہ ہو، آپ اس بات پر اعتراض نہیں کر سکتے۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-23