چند اقسامِ قرض

36

سوال

قرض کی درج ذیل دوقسموں کے بارے میں آپ کی رائے درکار ہے:

  1. مکان کی ملکیت کے حصول سے پہلے آپ مکان کی قیمت (قرض) کی قسطوں میں ادائیگی کے ساتھ ساتھ کچھ مزید رقم بھی بطورِ کرایہ ادا کرتے ہیں تو کیا یہ رقم ادا کرنا صحیح ہے ؟
  2. بینک آپ کے لیے مکان خریدتا ہے اور قسطوں میں اصل رقم (قرض)سے زیادہ رقم وصول کرتا ہے تو کیا یہ رقم سود ہو گی یا بینک کے ساتھ اس طرح کی ڈیل کی جا سکتی ہے ؟

جواب

آپ کے بیان کردہ قرض کی پہلی قسم میں بظاہر ہمیں کوئی خرابی محسوس نہیں ہوتی اس لیے کہ اس میں نفع کی بنیاد اجارہ ہے نہ کہ سود۔اس طریقے میں قرض دینے والا ادارہ قرض کی رقم قسطوں میں وصول کرتا ہے ۔اس قرض کی مکمل ادائیگی کے بعد مکان کی ملکیت مقروض کو منتقل کر دی جاتی ہے ۔اس دوران میں مقروض اس مکان میں کرایہ دار کی حیثیت سے رہتا ہے اور اس حیثیت میں وہ مکان کا کرایہ یا ’اجارہ‘ ادا کرتا ہے ۔ اس طرح ایک ضرورت مند شخص جس کا اپنا مکان نہیں ہوتا مکان کا مالک بن جاتا ہے اور قرض دینے والے کو اس کی رقم واپس ملنے کے علاوہ کرایے کی مدمیں آمدنی بھی ہوتی ہے ۔ اس طرح دونوں فریقین کا فائدہ ہوتا ہے اور شریعت کے کسی اصول کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوتی۔

آپ کی بیان کردہ دوسری شکل ہمیں بیع مرابحہ کی ایک قسم محسوس ہوتی ہے جس میں بینک آپ کی ضرورت کی ایک چیز یا مکان خرید کر آپ کو دوبارہ زیادہ قیمت پر فروخت کر دیتا ہے ۔یہ ہمارے نزدیک سود ہی کو ایک حیلہ کے ذریعے سے اختیار کیے جانے کے مترادف ہے ۔اس لیے اس سے بچنا چاہیے ۔ تاہم یہ واضح رہے کہ اپنی اصل میں یہ بھی سود نہیں، بلکہ کرایہ ہی ہےاور ضرورت اسی امر کی ہے کہ بینک اس قرض میں اس اضافی رقم کی کی نوعیت کو سود کہنے کی بجائے کرایہ قرار دیں ۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-23

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading