ایک ماہ کے حمل کا اسقاط

24

سوال

کیا ایک ماہ کی حاملہ عورت کسی وجہ سے اسقاط (abortion) کرا سکتی ہے ۔میں اور میری بیوی بطور اسٹوڈنٹ UK میں رہتے ہیں اور ہمارے پہلے ہی دو بچے ہیں ، ایک کی عمر تین سال اور دوسرے کی پندرہ ماہ ہے ، لہٰذا میری بیوی مزید بچہ نہیں چاہتی کیونکہ تعلیم کے ساتھ اس کی مکمل دیکھ بھال کرنا بے حدمشکل ہو گا ۔تو کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں؟

جواب

اللہ تعالیٰ رحم مادر میں انسانی تخلیق دو بڑ ے مراحل میں کرتے ہیں: ایک مرحلہ انسان کے حیوانی وجود کی ارتقائی تشکیل کا ہے اور دوسرا مرحلہ وہ ہے جب اس حیوانی وجود میں روح پھونک کی جاتی ہے۔ بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ روح پھونکنے کا یہ واقعہ کم و بیش 120دن یا چار ماہ بعد ہوتا ہے ۔روایت کا متن اس طرح ہے :

’’عبداللہ بن مسعودؓنے کہتے ہیں کہ ہم سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اوربلاشبہ آپ سچے تھے ۔جو وعدہ آپ سے کیا گیاوہ بھی سچا تھا، تم میں سے ہر ایک کامادہ(نطفہ)اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع کیا جاتا ہے ۔ پھرچالیس دن تک وہ خون کی پھٹکی رہتا ہے ۔ پھر چالیس دن تک گوشت کی بوٹی۔پھراللہ تعالیٰ(اس کے پاس)ایک فرشتے کوبھیجتا ہے اور چارباتیں لکھنے کا اس کوحکم دیتا ہے۔ اس کے اعمال، روزی، عمر، نیک بختی یابدبختی۔ پھراس میں روح پھونکی جاتی ہے ۔‘‘ (بخاری، رقم3036)

اس روایت سے ظاہر ہے کہ ابتدائی 120ایام تک بچے کے حیوانی وجود کا ارتقا ہورہا ہوتا ہے۔ اس دوران میں وہ بچہ محض ایک حیوانی قالب ہوتا ہے۔ بلا شبہ اس عرصے میں بھی یہ جان محترم ہے ، مگر اس کا تقدس انسانی جان جیسا نہیں۔ مگر روح پھونکے جانے کے بعد اس حیوانی وجود کو وہی تقدس حاصل ہوجاتا ہے جو ایک زندہ انسان کو ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے بعد اسقاط حمل نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس سے قبل کسی معقول سماجی، طبی وجہ کی بنا پر اسقاط کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس روشنی میں آپ اپنے معاملے کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-22

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading