سوال
میرا سوال یہ ہے کہ ہمیں اپنا حق کس سے لینا چاہیے؟ اپنے والدین سے یا ریاست سے؟میرا مطلب ہے کہ جب انسان جوان ہو جاتا ہے تو وہ اپنی زندگی اپنے طریقے سے جینا چاہتا ہے۔ اب اسے اگر اپنے طور پر علیٰحدہ رہنے پڑے تو کیا ہمیں ریاست سے اپنا حق طلب کرنا چاہیے یا اپنے والدین سے کہ وہ ہماری رہنے کے لیے ہماری جگہ مہیا کریں۔ جیسے بہت سے ممالک میں ہر فرد کو آزادی کے ساتھ جینے کے لیے وسائل مہیا ہوتے ہیں لیکن ہم چونکہ ایک غیر ترقی یافتہ ملک کے رہنے والے ہیں۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیے کہ اس صورت میں مجھے کس سے رجوع کرنا چاہیے؟
جواب
اس ميں كوئى شك نہيں كہ روٹى كپڑا اور مكان ہر آدمى كا حق ہے. چنانچہ اسے چاہيے كہ وه اپنے خون پسينے كى محنت سے يہ حق حاصل كرے. جيسے دانہ دنكا پرندوں كا حق جسے وه دن بهر كى محنت سے تلاش كيا كرتے ہيں.
اس كا مطلب يہ نہيں كہ آدمى كو چاہيے كہ وه زمين پر ليٹ جائے اور والدين يا رياست سے مطالبہ كرے كہ تم مجهے روزانہ كى روٹى بهى كهلاؤ، پہننے كےليے ہميشہ كپڑا بهى ديا كرو، اور رہائش كےليے ايك عدد مكان كى رجسٹرى بهى ميرے نام كرو.آپ جانتےہيں كہ امير والدين اپنےمعذور بيٹے يا نكهٹو بيٹے كو اپنى محبت كى وجہ سے يہ سب چيزيں مہيا كر بهى ديتے ہيں. رياست اگر بہت امير ہو گى تو وه بهى ايسا كر دے گى. ليكن يہ كوئى عزت كى بات نہيں ہو گى. رياست بهى اصلاً انهى كى عزت كرتى ہے جو اسے ٹيكس ديتے ہيں، نہ كہ ان كى جو جان بوجھ كر اس پر DEPENDENT رہتے ہيں.
پھر يہ بات بهى ديكهيے كہ غريب ماں باپ سےيا غريب رياست سے اس كى تمنا كرنا سراسر ظلم ہےاور غاصب اور ظالم رياست سے اس كى تمنا كرنا سراسر حماقت ہے.
چنانچہ آدمى كو چاہيے كہ وه اپنى محنت و مشقت سے كمائے ،خود بهى كهائے اور دوسروں كو بهى كهلائے.وه خود دوسروں كى مدد كرنے والابنے،ان كےحقوق ادا كرنے والابنے ، نہ كہ ان سےاپنے حقوق كا مطالبہ كرنے والا. آخر اسے صحت،طاقت ، ہمت اور ذہنى و جسمانى صلاحيتيں كس ليے دى گئى ہيں.
خدا نے سب انسانوں كو ادائيگى حقوق كى تعليم دى ہے.حقوق مانگنے ، ان كے حوالے سے احتجاج كرنے اور نہ ملنے كى صورت ميں دوسروں سے اپنے حقوق چهيننےكى تعليم خدا كى تعليم كے بالكل بر عكس ہے.
مجیب: Muhammad Rafi Mufti
اشاعت اول: 2015-06-26