بینک میں ملازمت

31

سوال

کیا بینک کی ملازمت حرام ہے اگر چہ کوئی براہِ راست سودی معاملات کو ہینڈل نہ کر رہا ہو؟

میں آئی ٹی انچارج کے طور پر بینک میں جاب کرتا ہوں ، میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آیا یہ جاب حرام ہے یا حلال؟جو بھی صورت ہو، ا س کی کم از کم اتنی وضاحت کر دیں جو مجھے بھی مطمئن کر دے اور میں دوسروں بالخصوص اپنے والدین کو مطمئن کرسکوں ؟

جواب

سود لینا ناجائز اور حرام ہےاور بینک سودی لین دین کا ادارہ ہے۔ تاہم دور جدید میں بینک کایہ ادارہ معیشت کے ہر شعبہ میں اس طرح متعلق ہو چکا ہے کہ ایک دن میں اس کا خاتمہ آسان نہیں ۔ ان حالات میں یہ کہنا کہ بینک کی ہر ملازمت قطعاً حرام ہے اور لوگ اسے فوراً چھوڑ دیں ، دین کی اپنی روشنی میں درست نہ ہو گا۔

بینک کی ملازمت بھی دو طرح کی ہے۔ ایک جس میں براہِ راست سودی معاملات میں تعاون کی وہ شکل ہوتی ہے کہ جسے حدیث میں ‘موکل’ یعنی سودی ایجنٹ کہا گیا ہے۔ جو لوگ ایسی ملازمتوں سے منسلک ہیں ، انھیں چاہیے کہ وہ جلد از جلد معاش کا کوئی متبادل تلاش کریں ۔ وہ اگر اپنے حالات کی بنا پر عزیمت کی یہ راہ اختیار نہ کر سکیں تو پروردگار کے حضور رجوع کر کے اپنا عذر اس کی کریم بارگاہ میں پیش کرتے رہیں ۔ ساتھ ہی اپنے مال میں سے کثرت کے ساتھ انفاق کریں ۔ امید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص کی بنا پر در گزر کا معاملہ فرمائے گا۔

دوسری ملازمت پبلک سروسز کی نوعیت کی ہوتی ہے جیسا کہ آپ نے بھی ذکر کیا ہے۔ ان کو کرنے میں اصلاً کوئی حرج نہیں ہے ۔جو لوگ ایسی ملازمتوں سے منسلک ہیں ، وہ اگر معاش کا کوئی دوسرا بہتر سلسلہ تلاش کر سکیں تو اچھی بات ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے حالات کی بنا پر ایسا نہیں کرتے تو ان شاء اللہ پروردگار کے حضور ان پر کوئی آنچ نہ آئے گی۔

البتہ جب کسی ریاست میں حکومت سودی لین دین کو ناجائز قرار دے دے تو ایسے میں سود کے کاروبار سے متعلق ہر ملازمت حرام اور ناجائز ہوجائے گی۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-23

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading