تنخواہ اور بچت پر زکوٰۃ

22

سوال

زکوٰۃ کے حساب کتاب سے متعلق میرا ایک سوال ہے: جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی ایک گفتگو میں فرمایا کہ تنخواہ (Salary Income) پر اڑھائی فیصد کے بجائے دس فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنی ہو گی۔سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی تنخواہ کا دس فیصد بطورِ زکوٰۃ ادا کر دیتا ہے ، اور پھر اسی تنخواہ میں سے کچھ رقم پس انداز کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتا ہے تو کیا اسے اس بچائی ہوئی رقم پر بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہو گی؟ مثلاً اگر میں ایکسال میں 5,00,000 روپے کماتا ہوں اور دس فیصد کے حساب سے 50,000 روپے بطورِ زکوٰۃ ادا کر دیتا ہوں اور پھرسال بھر میں 3,00,000 خرچ کرنے کےبعد 1,50,000 بچانے میں کامیاب ہوجاتا ہوں تو کیا اگلا سال آنے پر مجھے اس بچائے ہوئے 1,50,000 پر بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہو گی؟

جواب

جی ہاں آپ کو بچائے ہوئے ڈیڑھ لاکھ روپے پر بھی اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ دینی ہو گی۔ اس بات کو سمجھ لیجیے کہ جس طرح ایک شخص فصل اگاتا اور کٹائی کے موقع پر اس پر دس فیصد زکوٰۃ یعنی عشر ادا کرتا ہے اور سال کے آخر میں اپنی بچت پر بھی زکوٰۃ ادا کرتا ہے ، اسی طرح تنخواہ پر زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد سال کے آخر میں اگر رقم بچ رہی ہے تو اس پر مال کی زکوٰۃ عائد ہو گی۔ جاوید صاحب نے صرف یہ کیا ہے کہ تنخواہ کا الحاق پیدا وار سے کر دیا ہے ۔چنانچہ تنخواہ پر آپ اس وجہ سے زکوٰۃ دیتے ہیں کہ وہ پیداوار ہے اور سال کے آخر میں آپ جو زکوٰۃ دیتے ہیں وہ مال یا بچت کی زکوٰۃ ہوتی ہے ۔تاہم یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جاوید صاحب کے نزدیک حکومت زکوٰۃ کے علاوہ لوگوں سے کوئی اور رقم بطور ٹیکس نہیں لے سکتی، چنانچہ جو ٹیکس آپ ادا کرتے ہیں ، اسے اپنی زکوٰۃ سے منہا کرسکتے ہیں ۔

یہ تو قانون کا بیان ہو گیا تاہم یاد رکھنے کی اصل بات یہ ہے کہ زکوٰۃ اور انفاق کی رقم بظاہر آپ کے مال سے کم ہوکر دوسروں کو جاتی ہے ، مگر درحقیقت یہی وہ رقم ہے جو آپ کے پاس بچتی ہے ۔ آ پ کا انفاق ہی وہ چیز ہے جو کئی گنا بڑ ھا چڑ ھا کر آپ کو لوٹا دیا جائے گا۔باقی سب تو ختم اور فنا ہوجانا ہے ۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-02-08

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading