سوال
کیا شراب حرام ہے؟
کیا قرآن نے اس کے لیے حرام کا لفظ استعمال کیا ہے؟
کیا ہم علاج اور صحت کے مقاصد کے تحت اسے استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟
اسی طرح آج کل اکثر دوائیوں میں الکوحل استعمال ہوتا ہے تو اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟
جواب
شراب کے حرام ہونے میں کیا شک ہے ؟ یہ بعض لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ کسی چیز کی حرمت کے لیے قرآن میں اس کے لیے حرام کا لفظ استعمال ہونا ضروری ہے ۔حرام کا لفظ فقہی استعمال کی وجہ سے کسی شے کی ممانعت کے لیے زیادہ مشہور ہو گیا ہے ، مگر عربی زبان میں کسی چیز کی ممانعت کے لیے اس سے رکنے ، بچنے ، بازآنے اور اسے چھوڑ دینے کے بہت سے اسالیب ہیں ۔ آپ غور فرمائیے کہ خود ہم نے اردو زبان کے کتنے الفاظ اسی مقصد کے لیے استعمال کر دیے ہیں ۔ اسی طرح عربی کا معاملہ ہے ۔ چنانچہ قرآن کریم میں شراب اور بعض دیگر چیزوں کی حرمت کے بیان کے لیے حرام کے علاوہ متعدد الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔شراب سے متعلق آیت درج ذیل ہے :
اے ایمان والو!شراب، جوا، تھان اورپانسے کے تیربالکل گندے ، شیطانی کاموں میں سے ہیں ۔ تو ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمھیں شراب اورجوئے میں لگا کر تمھارے درمیان دشمنی اورکینہ ڈالے اورتمھیں اللہ کی یادسے اورنمازسے روکے ۔توبتاؤکیا اب تم ان سے بازآتے ہو؟
(المائدہ5: 90۔91)
کسی بات کو حرام نہ کہا جائے ، گندہ شیطانی کام کہا جائے ، اس سے بچنے اور باز آنے کا حکم دیا جائے ، کیاپھر بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ شراب دین میں ممنوع نہیں ہے ؟
جہاں تک شراب کے طبی استعمال کا سوال ہے تو شراب تو خود ایک بیماری ہے اور متعدد بیماریوں کا سبب ہے ، یہ علاج میں کیا استعمال ہو گی؟ دورِ جدید میں سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ بیماریو ں کے علاج کے لیے مریضوں کو شرابیں پلانے کی ضرورت نہیں ۔تاہم اگر اس مفروضے کو مان لیا جائے تب بھی ایسی صورت میں فیصلہ ڈاکٹر کرے گا۔ اس کے نزدیک مریض کی زندگی بچانے کے لیے اگر یہ ضروری ہے تو اس مقصد کے لیے اسے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
باقی رہا دوائیوں میں الکوحل کا استعمال تو واضح رہے کہ الکوحل ایک کیمیائی مرکب ہے ، جس کے بہت سے استعمالات ہیں ۔ جب یہ ایک نشہ آور مشروب یعنی شراب کی شکل میں ڈھلتا ہے تو اس کا استعمال ممنوع ہے ۔ دیگر حیثیتوں میں جہاں یہ نشہ نہ پیدا کرتا ہو، اس کا استعمال ممنوع نہیں ۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-27