کیا جہنم کافروں کا ابدی ٹھکانہ نہیں ہے؟

14

سوال

جاوید احمد صاحب غامدی کی کتاب میزان کے باب ’ایمانیات‘ میں آخرت پر ایمان‘ والے حصے میں یہ لکھا ہوا ہے کہ جہنمی آخر کار یا تو جہنم میں جل کر خاک یا راکھ ہو جائیں گے یا پھر سب کو سزا دینے کے بعد جہنم کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس سلسلے میں ایک آیت کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس میں یہ بھی ہے کہ کافر جہنم میں رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں ۔ تو اس کا پھر کیا مطلب ہوا؟ اسی کتاب میں جنتی زندگی کو بار بار ابدی بتایا گیا ہے تو کیا دوزخیوں کی زندگی ابدی نہیں ہو گی؟

جواب

جہنم کے خاتمے کے حوالے سے جاوید صاحب کی جو بات آپ نے نقل فرمائی ہے ، اس کا مدعا غالباً آپ پر پوری طرح واضح نہیں ہوا ہے۔ جاوید صاحب نے سورۂ ہود(11) کی آیت 106۔107کے حوالے سے جہنم کے خاتمے کی بات کو صرف ایک امکان کے طور پر بیان کیا نہ کہ واقعہ کے طور پر ۔ ان کی پوری بات اس طرح ہے:

” قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ بیان کی گئی ہے کہ جانتے بوجھتے کفر و شرک کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے دائمی عذاب ہے ۔ اسی طرح کوئی مسلمان اگر عمدًا کسی مسلمان کو قتل کر دے تو اس کے لیے بھی یہی سزا بیان ہوئی ہے ۔ قانون وراثت کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بھی اسی کی وعید فرمائی گئی ہے ۔ یہی معاملہ بعض دوسرے کبائر کے مرتکبین کا بھی ہے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ دوزخ میں وہ لوگ بھی ہوں گے جو اپنے گنا ہوں کی سزا بھگت لینے کے بعد اس سے نکال لیے جائیں گے ، لیکن قرآن کی ان تصریحات سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے مجرموں کی تعذیب کے لیے دوزخ ہمیشہ قائم رکھی جائے گی۔ اس کے باوجود یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ایک دن اس کی بساط لپیٹ دی جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا عذاب وعدہ نہیں ، بلکہ وعید ہے اور عالم کا پروردگار یہ حق یقینا رکھتا ہے کہ اپنی رحمت سے ان مجرموں کی سزا میں تخفیف کرے یا خاک اور راکھ بنا کر ہمیشہ کے لیے اسی جہنم کی مٹی میں دفن کر دے :

’’پھر جو بد بخت ہوں گے ، وہ دوزخ میں پڑ یں گے ، اس میں وہ گدھوں کی طرح چیخیں اور چلائیں گے اور اسی میں پڑ ے رہیں گے ، جب تک (اُس عالم کے ) زمین و آسمان قائم ہیں ، مگر جو تیرا پروردگار چاہے۔ بے شک، تیرا پروردگار جو چاہے ، کر گزرنے والا ہے ۔‘‘ ، (سورۂ ہود11: 106۔107) "

(میزان : ص191)

اس پیرا گراف میں اصل بات یہی بیان ہوئی ہے کہ قرآن کے عمومی بیان کے مطابق جہنم ایک ابدی مقام ہے ، البتہ اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی رحمت سے اگر چاہے تو کچھ تخفیف کر دے ۔ مگر یہ کوئی حتمی بات نہیں ، بلکہ ایک ممکنہ بات ہے جس کی طرف سورۂ ہود کی مذکورہ بالا آیت اشارہ کرتی ہے ۔

اس آیت میں ’جب تک زمین و آسمان قائم ہیں ‘ کے الفاظ بے شک دوام کا ایک کنایہ ہے ، مگر اس کے ساتھ ہی ’مگر جو تیرا پروردگار چاہے ‘ کا استثنا لگا ہوا ہے ۔ اس استثنا میں جو تیرا رب چاہے کہ کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس جہنم کا دوام اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے ۔ وہ چاہے تواس کے خاتمہ کا فیصلہ کر لے ۔ اسی لیے اس پوری بات پر تبصرہ یہ کیا ہے کہ ’بے شک، تیرا پروردگار جو چاہے ، کر گزرنے والا ہے ‘۔ یعنی جہنم کو ہمیشہ قائم رکھنا اللہ تعالیٰ کی کوئی ایسی ذمہ داری نہیں جسے پورا کرنا اس کے لیے لازمی ہو۔اس کا رہنا یا نہ رہنا اللہ تعالیٰ کی مرضی اور مشیت پر موقف ہے اورکوئی چیز ایسی نہیں جو اس فیصلہ کی راہ میں رکاوٹ بن سکے ۔ البتہ جنت کے ہمیشہ باقی رکھنے کا اس نے وعدہ کر رکھا ہے ۔اسی لیے جنت کا معاملہ یہ نہیں ہے ۔ اس بات کو آگے جنت کے ذکر میں ’ختم نہ ہونے والی عطا‘ کے الفاظ سے کھول دیا گیا ہے۔

اگلی آیت میں جنت کا ذکر کرتے وقت بھی ’مگر جو تیرا پروردگار چاہے ‘ کا استثنا بیان ہوا ہے ۔ مگر اس سے مراد اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ جنت کی بقا و دوام صر ف اللہ تعالیٰ کی عطا و بخشش کا نتیجہ ہے ۔پھرکسی بھی ممکنہ غلط فہمی کے ازالے کے لیے فوراًیہ فرمادیا کہ یہ وہ عطا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہو گی۔باقی رہی جہنم تو بلاشبہ وہ ایک ابدی جگہ ہے ۔ کسی مجرم کو اس بیان سے کوئی خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے ۔جاوید صاحب نے صرف ایک ممکنہ چیز کو واضح کیا ہے ۔ ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس امکان کو کبھی روبہ عمل لائیں ۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-27

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading