سوال
جماعت میں شامل مقتدی تلاوت کیوں نہیں کرتا؟ کیا اس صورت میں ہم ان روحانی فوائد سے محروم نہیں رہتے ، جو ہم خود تلاوت کرنے کی صورت میں محسوس کرتے ہیں؟
جواب
قرآن کریم کی قراءت کرنا نماز کے لازمی اجزا میں سے ہے۔ البتہ اس میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ حالت جماعت میں مقتدی قراءت کرے یا نہ کرے ۔ اس معاملے میں تین نقطہ ہائے نظر امت میں پائے جاتے ہیں:
۱) مقتدی سرے سے قراءت نہیں کرے گا اور خاموش کھڑ ا رہے گا۔ یہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے ۔
۲) مقتد ی سری نمازوں (جن میں امام خاموشی سے تلاوت کرتا ہے ) میں سورۂ فاتحہ اور دیگر سورتوں کی تلاوت کرے گا اور جہری نمازوں (جن میں امام بلند آواز سے تلاوت کرتا ہے ) میں صرف سورۂ فاتحہ کی تلاوت کرے گا۔ یہ امام شافعی کا قول ہے ۔
۳) مقتدی سری نمازوں میں امام کے ساتھ قراءت کرے گا اور جہری نمازوں میں خاموش رہے گا۔ یہ امام مالک کا قول ہے ۔
ہمارے نزدیک امام مالک کی رائے قرآن و حدیث میں اس حوالے سے آنے والے بیانات کی زیادہ بہتر تطبیق کرتی ہے۔ اس لیے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ قرآن پڑ ھا جائے تو اسے توجہ اور خاموشی سے سنو (اعراف 204 :7)۔ جبکہ احادیث میں سورۂ فاتحہ کی تلاوت کا حکم بھی ملتا ہے ( بخاری ، رقم 723)۔چنانچہ اس طریقے میں جب امام خاموش ہوتا ہے تو مقتدی تلاوت کر لیتا ہے اور جب امام تلاوت کرتا ہے تو اس صورت میں مقتدی کا قراءت کو خاموشی سے سننا ہی اسے تلاوت کے عمل میں شریک کر دیتا ہے اور ان روحانی فوائد سے اسے فیض یاب کرتا ہے جو قرآن کریم کی تلاوت سے حاصل ہوتے ہیں ۔یہ تیسری شکل جماعت کے آداب کے لحاظ سے بھی ایک بہتر رائے معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ جماعت کی اسپرٹ ایک امام کی پیروی میں نماز کو ادا کرنا ہے۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-02-10