سوال
کسی سے شادی کے لئے ازروئے اسلام کن شرائط کا لحاظ ضروری ہے ؟ با الخصوص ذات پات کے حوالے سے بتائیں کہ اگر دو لوگ مسلم ہیں لیکن ایک ذات کے نہیں ہیں تو کیا وہ شادی نہیں کر سکتے ۔ اور کیا ہم ذات کی بنیاد پر اپنے آپ کو برتر سمجھ سکتے ہیں ؟ براہِ مہربانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کی مثالوں سے اس کو واضح فرمائیں ؟
جواب
شادی ایک قانونی بندھن ہے ۔محرمات سے نکاح کی حرمت اور مہر کی ادائیگی کے علاوہ قرآن کریم میں نکاح کے حوالے سے صرف یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ کسی ایسے شخص سے شادی نہ کی جائے جو ایمان و اخلا ق کے دو بنیادی جرائم یعنی شرک و زناکا مرتکب ہوا ہو۔اسلا م میں نہ کسی مشرک یا مشرکہ سے شادی کرناجائز ہے اور نہ کسی ایسے شخص سے جو مسلمہ طور پر زانی یا زانیہ ہو۔
پہلی شرط کے بارے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے :
”اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں اور (یاد رکھوکہ) ایک مسلمان لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے ، اگرچہ وہ تمھیں کتنی ہی بھلی لگے ۔ اور اپنی عورتیں مشرکین کے نکاح میں نہ دو، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں اور (یاد رکھو کہ) ایک مسلمان غلام مشرک شریف زادے سے بہتر ہے ، اگرچہ وہ تمھیں کتنا ہی بھلا لگے۔ (بقرہ2: 221)
دوسری شرط کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
”اور ان (محرمات )کے ماسوا جوعورتیں ہیں وہ تمھارے لیے حلال ہیں اس طرح کے تم اپنے مالوں کے ذریعے انہیں طلب کرو اس شرط کے ساتھ کہ تم پاک دامن رہنے والے ہو نہ کہ بدکاری کرنے والے ”۔(سورہ نساء 4: 24)
تاہم شادی کی قانونی حیثیت کے علاوہ اس کی ایک سماجی حیثیت بھی ہوتی ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ شادی کابنیادی مقصد سماج میں ایک خاندان کا اضافہ کرنا ہے ۔اس لیے شادی کرتے وقت مندرجہ بالاقانونی شرائط کوپورا کرنے کے علاوہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ شادی ایسے لوگوں میں ہو جو سماجی اور خاندانی حوالے سے بھی ایک حیثیت اور ایک ہی پس منظر کے ہوں تاکہ نکاح کا یہ تعلق ایک مضبوط خاندان کو تشکیل دے سکے ۔ اس طرح کی چیزوں میں سے ایک چیز ذات برادری وغیرہ بھی ہے جو نکاح کے وقت لوگ عام طور پر دیکھ لیا کرتے ہیں ۔اس میں کوئی حرج نہیں۔
تاہم اگر ذات برادری کو شادی کی ایک لازمی شرط بنا دیا جائے تو یقینا یہ ایک غلط بات ہو گی۔ کسی ذات کو کسی دوسری ذات پر کوئی برتری حاصل نہیں اور نہ اسے نکاح کے لیے کوئی معیار بنانا چاہیے ۔ اسلام کی پوری تعلیم اس کے خلاف کھڑ ی ہوئی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب (جن کا تعلق عرب کے اعلیٰ ترین خاندان سے تھا) کا نکاح حضرت زید سے کیا جو ایک آزاد کردہ غلام تھے ۔اس مثال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام رنگ ، نسل اور ذات پات کی بنیاد پر کوئی فرق قطعاً تسلیم نہیں کرتا۔ان چیزوں کا اصل مقصد صرف لوگوں کا تعارف اور باہمی پہچان ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
”اے لوگو! ہم نے تم کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو کنبوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا ہے کہ تم باہم د گر تعارف حاصل کرو۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے ۔ بے شک اللہ بڑ ا ہی علم والا اور باخبر ہے۔” ، (الحجرات 49: 13)
قرآن کے اس بیان کی رو سے واضح ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر کوئی شخص بڑ ا چھوٹا نہیں ہوتا اور اس بنیاد پر شادی کے معاملہ میں کوئی تفریق گوارا نہیں کی جا سکتی۔ تاہم وہ پہلو بہر حال ایک حقیقت ہے جس کاہم نے اوپر ذکر کیا ہے کہ اپنے برابر اور جوڑ کے لوگوں میں شادی کرنا میاں بیوی کی بہتر انڈر سٹینڈنگ کا سبب اورخاندان کے ادارے کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-02-14