سوال
قرآن و حدیث کے مطابق اس شخص کا معاملہ کیا ہو گا جو کوئی گناہ کر بیٹھے لیکن پھر اس پر نادم و شرمسار ہو کر اللہ سے سچی توبہ کرے ؟ کیا اللہ ایسے شخص کو معاف کر دے گا ؟اور کیا روزِ قیامت اس شخص کے نامۂ اعمال میں وہ گناہ شامل ہو گا یا اسے مٹادیا جائے گا؟
جواب
للہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سچی توبہ بہت بڑ ی چیز ہے ۔توبہ کرنے کے بعد عملِ صالح اختیار کرنے والا شخص اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ آتا ہے جس کے بعد نہ صرف اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں بلکہ اس کے نامۂ اعمال سے برائیاں مٹ جاتی ہیں اور اس میں بھلائیاں ہی رہ جاتی ہیں ۔اس بات کو قرآنِ کریم میں بعض بڑ ے جرائم کے ذکر کے بعد اس طرح بیان کیا گیا ہے :
’’اورجونہ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبودکوپکارتے اورنہ اس جان کو، جس کواللہ نے حرام ٹھہرایا، بغیرکسی حق کے قتل کرتے اورنہ بدکاری کرتے ۔اورجوکوئی ان باتوں کامرتکب ہو گاوہ اپنے گنا ہوں کے انجام سے دوچارہو گا۔قیامت کے دن اس کے عذاب میں درجہ بدرجہ اضافہ کیاجائے گا اوروہ اس میں خوارہوکرہمیشہ رہے گا۔مگروہ جوتوبہ کر لیں گے ، ایمان لائیں گے اورعمل صالح کریں گے تواللہ ان کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا اوراللہ بڑ ابخشنے والا، مہربان ہے ۔ اورجوتوبہ کرتا ہے اورعملِ صالح اختیارکرتا ہے وہ درحقیقت اللہ کی طرف لوٹتا ہے۔‘‘(الفرقان25:68-71)
ایک دوسرے مقام پر نیکیوں کی یہ خصوصیت بیان ہوئی ہے کہ وہ برائیوں کو مٹادیتی ہیں :
’’اور نماز کا اہتمام کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔ بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔ یہ یاددہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں ۔‘‘(ھود11:114)
ان آیات کی بنا پر توبہ کر کے سچی خدا پرستی اختیار کرنے والوں کو یہ اطمینان رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انھیں رسوا نہیں کریں گے اور ان کے نامۂ اعمال میں کوئی ایسی چیز نہ ہو گی جو مخلوق کے سامنے ان کی رسوائی کا سبب بن جائے ۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-02-11