سوال
تین سال سے میرے ذہن میں ایک سوال ہے۔ میں نے انٹرنیٹ کے ذریعے کئی ایک علما سے اس کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ناکام رہی ہوں ، آج آپ سے یہ سوال کر رہی ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا قرآن و حدیث میں ایسا کوئی حوالہ پایا جاتا ہے جس میں بتایا گیا ہو کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ سارے نبیوں میں سب سے اونچا ہے؟ میں نے ترجمے کے ساتھ قرآن ، صحیح بخاری اورصحیح مسلم کا مطالعہ کیا ہے لیکن مجھے کہیں کوئی ایسی بات نہیں ملی ، بلکہ بخاری و مسلم میں کئی ایک ایسی صحیح حدیثیں پڑ ھنے کو ملیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’مجھے انبیا پر فضیلت مت دو‘ اور یہاں ہم نعتوں میں سنتے ہیں کہ ’سارے نبی تیرے در کے سوالی‘۔ کیا ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم اپنے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر عمل کریں؟ براہِ کرم حوالے کے ساتھ میرے سوال کا جواب دیں۔
- جاوید احمد صاحب غامدی کی کتاب میزان کے باب ’ایمانیات‘ میں ’رسولوں پر ایمان‘ والے حصے میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ہم کسی پیغمبر کو کسی دوسرے پیغمبر پر فوقیت نہیں دیتے ۔تو کیا یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی کہی جائے گی اور پھر کیا آپ کو افضل الانبیا قرار دینا صحیح نہیں ہو گا؟
جواب
آپ نے دریافت فرمایا ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیا سے افضل ہیں اور کیا یہ بات قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے؟ اس کا جواب ہے کہ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی بات بیان نہیں ہوئی ہے ، بلکہ جیسا کہ آپ نے خود بھی نقل کیا ہے کہ انبیا کے درمیان فضیلت کا مقابلہ کرنے سے روکا گیا ہے۔
انبیا کو ایک دوسرے پر فضیلت دینے سے روکنے کی اپنی وجوہات ہیں تاہم ، یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو مختلف خصوصیات میں ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور قرآن مجید میں ان کی فضیلت اور فضائل دونوں کو بیان بھی کیا گیا ہے ، مثال کے طور پر دیکھیے سورۂ بقرہ(2)کی آیت 253۔ جس روایت کا اقتباس آپ نے نقل فرمایا ہے اسی روایت میں حضور نے نہ صرف انبیا کے درمیان فضیلت کا مقابلہ کرنے سے روکا ہے ، بلکہ اپنے اوپر حضرت موسیٰ کی ایک بڑ ی فضیلت کو بھی بیان کیا ہے۔ یعنی روز قیامت جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو حضور سب سے پہلے ہوش میں آئیں گے اور دیکھیں گے کہ سیدنا موسیٰ عرش کا پایہ تھامے ہوئے ہوں گے۔ پھر حضور فرماتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے یاطور کی بے ہوشی کے بدلے میں اس روز کی بے ہوشی سے بچالیے گئے۔ (بخاری، رقم 3233)
آپ نے مختلف مواقع پر دیگر انبیا کے فضائل بھی بیان کیے ہیں جیسے ایک موقع پر جب حضور کو خیر الخلائق کہا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ تو ابراہیم تھے(ابو داؤد:رقم4672)۔ ایک موقع پر سب سے زیادہ باعزت انسان کے متعلق پوچھا گیا تو حضرت یوسف کا نام لیا (بخاری :رقم3194)۔ اسی طرح حضور نے اپنی فضیلت کے بعض پہلو بھی گنوائے ۔ مثلاً ایک روایت میں فرمایا کہ میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا (مسلم:رقم2278)۔ اسی طرح دیگر انبیا پر اپنی فضلیت کے چھ پہلوؤں کو اس طرح گنوایا :
’’مجھے نبیو ں پر چھ چیزوں میں فضیلت دی گئی ہے :
- مجھے جامع کلام کرنے کا ملکہ دیا گیا ہے ۔
- رعب سے میری مدد کی گئی ہے ۔
- غنائم کو میرے لیے حلال کیا گیا ہے ۔
- زمین کو میرے لیے پاکیزہ اور سجدہ گاہ بنادیا گیا ہے ۔
- مجھے تمام مخلوقات کی طرف مبعوث کیا گیا ہے ۔
- نبوت مجھ پر ختم کی گئی ہے ۔‘‘ ، (مسلم:رقم523)
ان احادیث میں وہی بات بیان ہوئی ہے جو قرآن نے بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر رسول کو دوسرے رسول پر کسی نہ کسی پہلو سے ممتاز کیا ہے (بقرہ253:2)، تاہم یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ انبیا کو ایک دوسرے پر فضیلت دیں جیسا کہ اوپر بخاری کی روایت سے ظاہر ہے۔ اس سے بڑھ کر حضور نے اپنی مدح سرائی میں مبالغہ کرنے سے ہمیں روکا ہے۔ جیساکہ بخاری کی اس روایت سے ظاہر ہے:
’’سیدناعمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناکہ میری تعریف میں مبالغہ نہ کروجیسے انصار نے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کی تعریف میں مبالغہ کیا ، میں تواللہ کابندہ ہوں اورکچھ نہیں ، پس اس طرح کہوکہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول۔‘‘
(بخاری :رقم3261)
تاہم اس تمام ہدایت کے باجود بدقستی سے یہ سانحہ پیش آ گیا ہے کہ مسلمان وہ سب کر رہے ہیں جس سے روکا گیا تھا۔ حتیٰ کے دیگر انبیا کوحضور کے در کے ’سوالیوں ‘ کے مقام پر پہنچادیا گیا ہے ، حالانکہ قرآن میں حضور کو ان نبیو ں کی لائی ہوئی ہدایت کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے (انعام90:6 )۔ اوپر کی روایات سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر یہ بات سن لیتے تو کس قدر ناراض ہوتے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کا یہی طرز عمل ہے جس کی بنا پر غیر مسلم عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور نبی پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔ اس کے نتیجے میں دین کی دعوت کاعمل بھی متاثر ہوتا ہے۔
ان حالات میں مسلمانوں کو یہی تلقین کی جا سکتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت ان کی بات ماننے کا نام ہے ، ان کی مرضی کے خلاف اپنی خواہشات پوری کرنے کا نام نہیں۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-02-08