سوال
کیا وجہ ہے کہ مرد کو تو آزادانہ طلاق دینے کا حق حاصل ہوتا ہے جبکہ عورت کے لیے اسے نکاح نامے کی ایک شق بنا دیا گیا ہے کہ اگر اس میں یہ حق بیان نہ کیا گیا ہو تو وہ طلاق نہیں لے سکتی؟ کیا یہ کوئی ثقافتی چیز ہے جسے معاشرے نے اپنا لیا ہو یا پھر خلع ہی عورت کے لیے طلاق کا واحد راستہ ہے؟
جواب
میاں بیوی کا تعلق مرد اور عورت کی باہمی رضامندی سے وجود میں آتا ہے اور جب تک دونوں فریق اس رشتے کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں باقی رہتا ہے ۔دونوں میں سے کوئی ایک رشتے کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لے تو نکاح کا یہ تعلق ختم کیا جا سکتا ہے ۔شریعت اسلامی نے مرد اور عورت دونوں کو یہ حق دیا ہے کہ وہ نکاح کے اس تعلق کو ختم کر دیں اور اس مقصد کے لیے طلاق اور خلع کا ایک قانون بھی مقرر کر دیا ہے۔دونوں کی علیحدگی کے طریقے میں فرق صرف یہ ہے کہ مرد علیحدگی کے لیے طلاق دیتا ہے اور عورت طلاق کا مطالبہ کرتی ہے ۔اسلام نے مردوں کے لیے بھی یہ طریقہ مقرر نہیں کیا کہ کسی روز اچانک انہیں غصہ آئے اور وہ طلاق دے کر فارغ ہوجائیں ، بلکہ انھیں طلاق سے قبل اپنی شکایات اور باہمی اختلافات کو حل کرنے کے لیے مختلف مراحل پرمشتمل ایک پورا لائحۂ عمل تلقین کیا گیا ہے ۔
خواتین اگر اس رشتہ کو ختم کرنا چاہیں تو وہ بھی طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہیں ۔ اس صورت میں وہ ایک برتر ا تھارٹی یعنی عدالت میں جا کر اپنا مطالبہ رکھیں گی۔جس کے بعد عدالت کے حکم پر شوہر کو طلاق دینی ہو گی۔ وہ اگر نہیں دے گا تو عدالت نکاح کو ختم کرنے کا حکم اپنی طرف سے دے سکتی ہے ۔یہ پورا عمل خلع کہلاتا ہے ۔جس طرح مرد طلاق کے ذریعے سے نکاح کو ختم کرسکتا ہے اسی طرح خلع کی بنیاد پر ایک خاتون اگر چاہے تواپنے رشتۂ نکاح کو ختم کرسکتی ہے ، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔
لوگوں کو عام طور پر غلط فہمی ہمارے ہاں رائج اس طرز عمل سے ہوتی ہے جس میں ایک مرد کا جب دل چاہتا ہے وہ اٹھتا ہے اور بیوی کو طلاق طلاق طلاق کہہ کر فارغ کر دیتا ہے اور بیوی اگر علیحدہ ہوجانا چاہے تو بہرحال اسے ایک پورے مرحلے سے گزرنا پڑ تا ہے ، جس میں بہت سی عملی مشکلات پیش آتی ہیں ۔ تاہم یہ معاشرتی رویے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ قرآن نے مردوں کے لیے بھی کچھ ضابطے قاعدے مقرر کیے ہیں ۔اسی طرح خواتین کو بھی مکمل آزادی ہے کہ ایک دفعہ وہ رشتۂ نکاح ختم کرنے کا فیصلہ کر لیں تو خلع حاصل کرسکتی ہیں ۔
آپ نے اپنے سوال میں جس چیز کا ذکر کیا وہ خلع نہیں ، بلکہ تفویض طلاق کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مرد طلاق دینے کا اپنا حق اپنی بیوی کو تفویض کر دیتا ہے ۔ یہ شریعت کا کوئی حکم نہیں نہ خلع کے قانون کے بعد اس کی کوئی ضرورت ہے۔ یہ محض ہمارے فقہا کا ایک نقطۂ نظر ہے جسے چاہیں تو خواتین نکاح کے وقت اختیار کر لیں ۔ تاہم ہمارے نزدیک اس میں صحیح طریقہ یہ نہیں کہ خاتون جب چاہے طلاق کا حق استعمال کر لے۔ یہ طریقہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کے لیے پسند نہیں کیا تو عورتوں کے لیے کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے ۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس حق کے استعمال کے کچھ عرصہ مثلاً مہینے بعد طلاق موثر ہو اور اس عرصہ میں فریقین اور ان کے اہل خاندان صلح صفائی کی کوشش کرسکیں ۔یہ کوشش اگر کامیاب ہوجائے تو نکاح برقرار رہے گا ۔یہی ہمارے نزدیک صحیح طریقہ ہے ۔تاہم تفویض طلاق کا ذکر نکاح کے وقت نہ بھی کیا جائے تب بھی خلع کا حق ہر حال میں باقی رہتا ہے اور جیسا کہ ہم نے واضح کیاکہ اس کی بنیاد پر خاتون رشتۂ نکاح کو ختم کرسکتی ہے ۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-23