سوال
میں بینک میں نوکری کرتا ہوں ، لیکن اپنی فیملی کے بہتر مستقبل کے لیے نوکری کے ساتھ ساتھ یا نوکری کو خیر باد کہہ کر اپنا کاروبار کرنا چاہتا ہوں ۔لیکن موجودہ حالات میں اس میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہوں ۔کیونکہ اس وقت جنرل اسٹور کے چھوٹے سے کاروبار سے لے کر ڈیلر شپ اور ٹھیکیداری کے بڑ ے بڑ ے کاروبار تک میں حکومتی یا نیم حکومتی اداروں سے واسطہ پڑ تا ہے اور ان سے لائسینس حاصل کرنے ، اسے برقرار رکھنے اور دوسرے کئی طرح کے معاملات کرنے کے سلسلے میں ان کے اسٹاف کو رشوت دینی پڑ تی ہے ، کیونکہ اس کے بغیر آپ کے جائز کام بھی نہیں ہوتے۔ اور اسی طرح آج کے چیلنجنگ اور مقابلہ بھرے ماحول میں کاروبار چلانے کے لیے بینکوں سے سودی قرض لینا بھی ناگزیر ہو چکا ہے ۔میں اس سلسلے میں جتنے بھی کاروباری لوگوں سے ملا ہوں ، وہ سب ان مشکلات کا سامنا کر رہے اور مجبوراًحکومتی افسران اور اداروں کو رشوت دیکر اور بینکوں سے سود پر قرض لے کر اپناکاروبار چلا رہے ہیں۔ کیا اس طرح کے حالات میں اپنا گھر چلانے ، ایک مناسب معیارِ زندگی حاصل کرنے اور اپنے بچوں کی اعلی تعلیم اور بہتر مستقبل کے لیے دل کی ناپسندیدگی کے ساتھ ان برائیوں میں ملوث ہوتے ہوئے کاروبار کیا جا سکتا ہے؟
اسی طرح میں حکومت اور پرائیوٹ کنوینشنل بینکوں کے جاری کردہ ماہانہ مقررہ آمدنی کے سرٹیفیکیٹس کے بارے میں بھی جاننا چاہتا ہوں؟
جواب
جو حالات آپ نے بیان فرمائے ہیں وہ بڑ ی حد تک درست ہیں ۔ ہم اس سب کو ظلم سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اگر آپ سے رشوت مانگی جاتی ہے تو بلاشبہ یہ ظلم ہے ۔تاہم اس سے آپ کا اپنا کام ناجائز نہیں ہوتا۔اگر آپ کسی غلط کام کے لیے پیسے دیں گے تو پھر یہ گناہ ہے ، لیکن جائز کام کرانے کے لیے مجبوری کی حالت میں رقم دینا گناہ نہیں ۔اسی طرح آپ قرض لے کر کاروبار کرسکتے ہیں چاہے وہ سود پر ملے ۔ سود کھانا جرم ہے ، سود دینا نہیں ۔ سود دینے والا تو مجبور ہوتا ہے ۔ اس لیے اس پر کوئی گرفت نہیں ۔سود لینا البتہ بدترین گناہ ہے ۔ ا س سے ہمیشہ بچنا چاہیے ۔
بونڈز اور سیونگ ا سکیم میں حکومت خود یہ کہتی ہے کہ ہم سود دے رہے ہیں ۔اس لیے وہ سود ہی ہے ۔حالانکہ وہ چاہے تو اعلان کرسکتی ہے کہ ہم سود نہیں دے رہے ، بلکہ جو قرض ہم لیتے ہیں اس پر اپنی مرضی سے اضافہ کر کے لوٹا رہے ہیں ۔ اس صورت میں یہ سود نہیں ہو گا۔ تاہم اس وقت عملاً یہ صورتحال نہیں ہے اس لیے یہ سود ہی ہے۔اسی طرح بینک بھی اپنے کھاتے داروں کو سود ہی دیتے ہیں ۔ وہ بھی جائز نہیں ۔ تاہم قومی بچت کی اسکیموں میں نوعیت ہم سے قرض لے کر اس میں اپنی مرضی سے اضافہ کر کے لوٹانے سے مشابہ ہے اگرچہ اس کو بھی منافع ہی کہا جاتا اور سود ہی سمجھا جاتا ہے۔
شیئرز میں اصلاً خرابی نہیں ہے ۔البتہ بینکوں کے اسٹاک اور شئیرزمیں مسئلہ یہی ہے کہ بینک اصل میں اصول میں سودی ادارے ہیں ۔ اس لیے ان کے شیئرز میں کام کرنا درست نہیں ۔آپ البتہ یہ کرسکتے ہیں کہ اسلامک فنڈز میں پیسہ انویسٹ کر دیں جو بہت سے مالیاتی ادارے پیش کرتے ہیں ۔ خیال رہے ہم اسلامی بینکوں کی بات نہیں کر رہے ، بلکہ اسلامک فنڈز کی بات کر رہے ہیں جن میں مختلف ادارے اسٹاک ایکسچینج کے ان شیئرز میں کام کرتے ہیں جو جائز ہوتے ہیں ۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-23