سوال
کبھی کبھار مجھے خیال ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس کائنات کے انتظام میں براہِ راست دخیل نہیں ہے ، بلکہ اُس نے اپنے حکمِ ’کُن‘سے اس کا آغاز کیا اور پھر علت و معلول کے طرز پر سارے معاملات چلا دیے ، اوربالآخر ایک دن وہ صور پھونکے جانے کا حکم دے گا۔ کائنات کے آغاز و انجام کے دوران جو باتیں انسانوں کیلئے جاننا بہت دشوار تھیں یا جن تک رسائی میں اُسے بہت طویل مدت لگتی ، اُنہیں اُس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعے لوگوں کو بتا دیا اور اِس طرح انسانوں کو وہ خدائی علم بخشا جو آسمانی صحیفوں اور کتابوں کی شکل میں پایا جاتا ہے۔اِس کے علاوہ اُس کا اِس دنیا سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے ۔ یہ محض میرے خیالات ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ آپ ان پر روشنی ڈالیں اور تبصرہ کریں۔
جواب
اللہ تعالیٰ کے متعلق جاننے کا سب سے بڑ ا ذریعہ قرآنِ کریم ہے ۔ قرآنِ کریم کے مطالعے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کو بنانے کے بعد اس سے بے تعلق ہرگز نہیں ہو گیا ہے ، بلکہ اپنے علم، قدرت، رحمت اور ربوبیت کے ساتھ ہر لمحہ اپنی مخلوقات کے ساتھ متعلق ہے ۔اس نے اس کائنات کو تخلیق ہی نہیں کیا بلکہ یہاں ہر آن اسی کا ‘امر’ (حکم) جاری ہے ۔یہ بات قرآنِ مجید میں جگہ جگہ بیان ہوئی ہے ۔ ہم مثال کے طور پر صرف ایک مقام نقل کیے دیتے ہیں :
’’بے شک تمھارارب وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اورزمین کوچھ دنوں میں پیداکیا، پھروہ عرش پرمتمکن ہوا۔ڈھانکتا ہے رات کودن پرجواس کاپوری سرگرمی سے تعاقب کرتی ہے ، اوراس نے سورج اورچانداورستارے پیداکیے جواس کے حکم سے مسخرہیں ۔آگاہ کہ خلق اورامراسی کے لیے خاص ہے !بڑ اہی بابرکت ہے اللہ، عالم کارب۔اپنے رب کوپکاروگڑ گڑ اتے ہوئے اورچپکے چپکے۔ بے شک وہ حدود سے تجاوزکرنے والوں کوپسندنہیں کرتا۔‘‘ (اعراف7: 54۔55)
آپ دیکھ لیجیے کہ ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ تخلیق کائنات کے بعد اللہ تعالیٰ عرش پر متمکن ہوئے ۔ یہ کائنات کا نظام چلانے کا ایک استعارہ ہے ۔ اس نظم و انتظام کی پھر کچھ مثالیں بیان ہوئیں جیسے دن اور رات کا آنا جانا اور اجرامِ فلکی کا ایک نظام میں بندھے ہونا۔ پھر متعین طور پرآپ ہی کے سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ تخلیق اگر اس نے کی ہے تو کائنات پر حکم بھی اسی کا چل رہا ہے اور وہی ہے جس کی برکتیں ہر مخلوق کو پال رہی ہیں ۔ نتیجہ پھر یہ نکلا کہ انسان کو صرف اسی رب کو ، اسی پالنہار کو گڑ گڑ ا کر پکارنا چاہیے اور اس کی نافرمانی اور سرکشی سے بچنا چاہیے ۔
ان آیات کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہے کہ کائنات کے نظم میں اللہ تعالیٰ کی مداخلت کاسوال تو بعد میں اٹھے گا، پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ تو کسی وقت بھی کائنات کے معاملات سے غیر متعلق نہیں ہوا، بلکہ ہر لمحہ اس کے معاملات خود چلا رہا ہے ۔رہے انسان تو ان کو اس نے اختیار و ارادہ دیا اوراس کے استعمال کی آزادی بھی دی ہے ۔اسی بات کو بتانے کے لیے اس نے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا ہے ۔ تاہم قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے معاملات میں بھی وہ مداخلت کرتا ہے ۔گو یہ مداخلت اسبا ب کے پردے ہی میں ہوتی ہے ۔اس مداخلت کی تفصیل اگر آپ کو دیکھنی ہے تو سورۂ کہف میں آنے والے قصہ موسیٰ و خضر کا مطالعہ کر لیں ۔ وہاں یہ چیز بالکل کھول کر بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح سورۂ یوسف میں سیدنا یوسف ؑ کے واقعات میں اس حقیقت کی وضاحت کی گئی ہے ۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-29