سوال
ہم جدہ میں رہتے ہیں اور مکہ جاتے رہتے ہیں عمرہ یا طواف کرنے ۔میری بیوی چہرے کا پردہ نہیں کرتی، کیا وہا ں مقرر عملے کے کسی شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ میری بیوی کو با اصرار چہرہ چھپانے کا حکم دے ؟
جواب
آپ کاسوال بہت تفصیلی جواب چاہتا ہے ۔ جس میں نیکی اور حق کی تلقین کے حوالے سے سرپرستوں ، حکمرانوں اور عام لوگوں کی ذمہ داریاں زیر بحث آنی چاہییں ۔تاہم بنیادی بات یہ ہے کہ جس چیز کی تلقین کی جا رہی ہے آیا وہ اپنی ذات میں کوئی مسلمہ دینی حکم ہے بھی یا نہیں ۔چہرے کے پردے کے حوالے سے سارے اہلِ علم جانتے ہے ہیں کہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے جس میں اہل علم مختلف الآرا ہیں ۔اس لیے ہمارے نزدیک اس معاملے میں جو لوگ چہرے کے پردے کو لازمی سمجھتے بھی ہیں ، ان کے لیے بھی بہتر طریقہ یہی ہے کہ وہ دلائل کے ذریعے سے اس پر لوگوں کو قائل کریں نہ کہ زور زبردستی کا راستہ اختیار کریں ۔ سعودی عرب میں حکومت ان اہل علم کا نقطۂ نظر کو درست سمجھتی ہے جن کے نزدیک چہرہ ڈھانکنا ضروری ہے ۔چنانچہ وہ اس حکم کو سرکاری طور پر نافذ کرتی ہے ۔ تاہم ہمارے نزدیک حکومت ایسے معاملات میں اگر کسی نقطۂ نظر کی قائل ہو، تب بھی اسے صرف تلقین کا رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔ رہا حرم میں چہرہ ڈھانپ کر رکھنے کا سوال تو ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ حرم میں خواتین کو کیوں چہرہ ڈھانپنے کی تلقین کی جاتی ہے جبکہ عمرہ و حج کے احرام میں تو بالاتفاق خواتین کے لیے چہرہ ڈھانپناجائز نہیں ۔
آپ اگر حرم جاتے ہیں اور احرام کی حالت میں ہیں تو ایسے میں خواتین کے لیے چہرہ کھول کر رکھنا لازم ہے ۔ طواف میں آپ کی مرضی ہے کہ چہرہ کھولیں یا ڈھانپیں ۔ ہم ہمیشہ جس چیز کی طرف توجہ دلاتے ہیں وہ یہ ہے کہ دین کا اصل مطالبہ عفت و عصمت کی اقدا رہیں ۔ان اقدار کو ہمیں اپنے مرد اور خواتین دونوں میں پیدا کرنا چاہیے ۔اس کے لیے سورۂ نور کے وہ ا حکام جن کا خلاصہ اوپر بیان ہوا ، انھیں اپنی عورتوں اور ان سے زیادہ اپنے مردوں میں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-02-11