چہرے کا پردہ

29

سوال

کیا عورت کے لیے چہرہ چھپانا لازمی ہے ؟

جواب

خواتین کو ایک قریبی حلقے سے باہر اپنا چہرہ کھول کر رکھنے کی اجازت ہے یا نہیں اس پر امت میں ابتدا ہی سے ایک سے زیادہ آرا رہی ہیں۔ ہمارے نزدیک خواتین چہرہ کھول سکتی ہیں۔ استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی صاحب مرد و زن کے اختلاط کے مواقع کے لیے دیے گئے آداب کے معاملے میں ابدی شریعت کا ماخذ سورۂ نور (آیات 30۔31) کو سمجھتے ہیں اور سورۂ احزاب کی آیات کو وقتی تدبیر۔ تفصیل کے لیے آپ ان کی کتاب میزان کے باب قانونِ معاشرت میں "مردوزن کا اختلاط” کے عنوان کا مطالعہ کیجیے۔ ان کے نقطۂ نظر کے لحاظ سے آیات میں بیان کردہ حدودو احکام کا خلاصہ درجِ ذیل ہے۔ اسی میں چہرے کے پردے کے حوالے سے بھی ہمارا نقطۂ نظر بیان ہو گیا ہے۔

  • مرد وزن کا سامنا ہو تو دونوں کو اپنی نگا ہوں کو بچاکر رکھنا چاہیے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نگا ہوں میں حیا ہو، گھور کر نہ دیکھا جائے ، خدو خال کا جائزہ نہ لیا جائے ۔ اس سے مراد یقیناً یہ نہیں کہ ہر وقت نگاہ نیچی رکھی جائے ۔ ان آیات میں ’’مِنْ اَبْصَارِھِمْ‘‘ یعنی اپنی نگا ہوں میں سے بعض کو نیچا رکھیں کے الفاظ سے یہ بات بالکل واضح ہے۔
  • مرد اور خواتین دونوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی شرمگا ہوں کی حفاظت کریں ۔اس کے لیے عربی تعبیر ’حفظ فروج‘ استعمال ہوئی ہے ۔سورۂ احزاب(22) کی آیت 35میں ’حفظ فروج‘ کو اہل ایمان کے ایک مستقل وصف کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’نویں چیزحفظ فروج ہے ۔یعنی جوشرم گا ہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔یہ ضبط نفس اورتقویٰ کا ثمرہ ہے ۔برہنگی، عریانی اور فواحش سے اجتناب کرنے والوں کے لیے یہ تعبیرقرآن میں بعض دوسرے مقامات پربھی آئی ہے ۔مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی عفت وعصمت کی بالکل آخری درجے میں حفاظت کرنے والے ہیں ۔چناچہ اللہ نے جہاں اجازت دی ہے ، اس کے سوا خلوت وجلوت میں اپناستروہ کسی کے سامنے نہیں کھولتے اورنہ کوئی ایسالباس پہنتے ہیں جوان اعضاء کونمایاں کرنے والا ہو جو اپنے اندرکسی بھی لحاظ سے جنسی کشش رکھتے ہیں ۔ فواحش سے اجتناب کایہی رویہ ہے جس سے وہ تہذیب پیدا ہوتی ہے جس میں حیا فرماں روائی کرتی اورمردوعورت، دونوں اپنے جسم کوزیادہ سے زیادہ کھولنے کے بجائے ، جہاں تک ممکن ہو، زیادہ سے زیادہ ڈھانپ کر رکھنے کے لیے مضطرب ہوتے ہیں ۔‘‘ (اخلاقیات ، ص86۔87)

مذکورہ بالا دونوں احکام مرد وعورت دونوں کو دیے گئے ہیں ۔ مردوں کے برعکس خواتین میں دو چیزیں اضافی طور پر پائی جاتی ہیں: ایک ان کے سینے کا صنفی اعضا میں شامل ہونا اور دوسرے ان کا زیب و زینت اختیار کرنا ۔ ان دونوں کا اظہار چونکہ مردوں کے لیے کشش کا باعث ہوتا ہے اس لیے خواتین کو اس ضمن میں خصوصی احکام دیے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں:

  • عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ اس موقع پر اپنی زیب و زینت کی کوئی شے ظاہر نہ ہونے دیں ۔ اس سے وہ زیبایش البتہ مستثنیٰ ہے جوان عادتاً کھلے رہنے والے اعضا پر ہوجیسے چہرے ، ہاتھ وغیرہ۔(اسی سے یہ واضح ہے کہ چہرہ ڈھانپ کر رکھنا دین کا مطالبہ نہیں)
  • خواتین با اہتمام اپنے سینے کو اوڑ ھنی وغیرہ سے ڈھانک کر رکھیں تاکہ سینہ کا ابھار ظاہر نہ ہو اور نہ گلے میں پہنا ہوا کوئی زیور یا گریبان ظاہر ہو۔ آیت میں ’خمار‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس کا مطلب اوڑ ھنی ہے۔ عرب خواتین اسے صرف سر پر لیا کرتی تھیں۔ مگر قرآن کے حکم کے بعد اپنی اوڑ ھنی(ہماری خواتین کے لباس میں دوپٹہ) کے ذریعے سے سر کے ساتھ ساتھ سینہ ڈھانپنا بھی ضروری ہو گیا۔
  • خواتین کے سینے کے مقابلے میں جس کی کشش صنفی نوعیت کی ہوتی ہے ، ان کی زیب و زینت جمالیاتی اعتبار سے باعث کشش ہوتی ہے۔ اِس جمالیاتی پہلو کا اظہار اگر اعتماد کے قریبی لوگوں تک محدود رہے تو باعثِ فساد نہیں ہوتا۔ چنانچہ خواتین کویہ رعایت دی گئی ہے کہ اپنے قریبی حلقے کے لوگوں میں ، جن کی فہرست آیت میں دی گئی ہے ، زینت کا اظہار کرسکتی ہیں۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-23

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading