سوال
اگر والدین جنتی ہوں اور ان کے بچے جہنمی تو کیا ایسے والدین جنت کے نعمتوں سے پوری طرح لطف اندوز ہو سکیں گے؟
جواب
’’اورجواپنے رب کی رضاجوئی میں ثابت قدم رہے اورجنھوں نے نمازکا اہتمام رکھا اورجوکچھ ہم نے ان کوبخشا اس میں سے سراًاور علانیہ خرچ کیا اورجوبدی کوبھلائی سے دفع کرتے ہیں ۔آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے ۔ابدکے باغ جن میں وہ داخل ہوں گے اوران کے آبا واجداد، ان کی بیویوں اوران کی اولادمیں سے جو صالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے ۔اورفرشتے ہردروازے سے ان کے پاس آئیں گے ۔‘‘ (رعد13: 22۔23)
تاہم جو لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے جہنم کے مستحق ہوں ان کو بہرحال ان کے اعمال کی سزا ملے گی۔اس معاملے میں حضرت نوح جیسے پیغمبر کے بیٹے کے لیے بھی کوئی رعایت نہیں جس نے کفر کیا اور اللہ کے عذاب میں گرفتار ہو گیا تھا ۔ انھو ں نے اس کے حق میں معافی کی درخواست کی جو نامنظور کر دی گئی (ھود11: 45۔47)۔ اسی طرح حضرت ابراہیم نے اپنے کافر باپ کے لیے دعا کی ، مگر اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ واضح کر دیا کہ وہ دشمن حق ہے تو وہ اس سے بے زار ہوگئے (توبہ9: 114)۔
جہاں تک خوشی کا سوال ہے تو بلاشبہ والدین اس بات پر خوش نہیں ہو سکتے کہ ان کی اولاد جہنم میں جائے ۔ اس کے لیے انھیں اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنی چاہیے ۔ وہ اس کے باجود برا عمل کریں تو ان پر کوئی ذمہ داری نہیں ۔ رہی ان کی خوشی تو بندۂ مومن کی اصل خوشی پروردگار کے فیصلوں پر ہوتی ہے جو سرتاسر رحمت اور عدل پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جیساکہ اوپر حضرت ابراہیم کی مثال سے ظاہر ہوا۔ اگر اس کا فیصلہ کسی کے بارے میں جہنم کا ہے تو پھر بندۂ مومن کی خوشی بھی اسی میں ہو گی کہ وہ رب کے فیصلے کو قبول کر لے ۔اللہ تعالیٰ بھی ان کے دل سے اس شخص کی محبت کا اثر ختم کر دیں گے ۔ جیساکہ روایت میں آتا ہے کہ سیدنا ابراہیم کے باپ کے معاملے میں کیا جائے گاکہ ان کے باپ کو اس کے اعمال کے لحاظ سے ایک مکروہ جانورکی شکل میں انھیں دکھایا جائے گا ۔یہ حقیقت دیکھنے کے بعد محبت کا فطری تعلق بھی باقی نہیں رہے گا۔
’’ابوہریرہؓ سے روایت ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ آذر کو قیامت کے دن ملیں گے ، آذرکے چہرے پرسیاہی اورغبارہو گا۔ابراہیم اسے کہیں گے کہ میں نے تجھے کہانہیں تھاکہ میری نافرمانی نہ کر۔ان کاباپ کہے گاکہ میں آج تمھاری نافرمانی نہیں کروں گا۔ابراہیم کہیں گے: اے میرے پروردگار ، تو نے میرے ساتھ اس بات کاوعدہ نہیں کیا کہ جس روزلوگ اٹھائے جائیں گے تو مجھے ذلیل اور رسوانہ کرے گا۔اس بات سے بڑ ھ کراورکون سی ذلت ہے کہ میرے باپ رحمت سے دورہونے والا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرمائے گاکہ میں نے جنت کافروں پرحرام کر دی ہے ۔پھرابراہیم کے لیے کہاجائے گا: اپنے قدموں کے نیچے دیکھو۔ وہ دیکھیں گے مٹی میں آلودہ ایک بچھو ہو گا۔اس کوٹانگوں سے پکڑ کر دوزخ میں ڈال دیاجائے گا (بخاری ، رقم 3172)
جنت میں یقیناً ہر انسا ن کی خواہش ہو گی کہ اس کی اولاد اور والدین کو اس کے قریب رکھا جائے ۔ جنت میں اعلیٰ درجے کے لوگوں کو یہ عزت بھی د ی جائے گی کہ ان کی اولاد اور والدین میں سے جو بھلائی کا راستہ اختیار کریں گے انھیں جنت میں ان کے برابر لے آیا جائے گا۔ چاہے وہ اپنے اعمال کے اعتبار سے کم درجہ پر ہوں ۔ قرآن میں اس بات کو دو مقامات پر اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’اورجولوگ ایمان لائے اوران کی اولاد نے بھی ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی، ان کے ساتھ ہم ان کی اولادکوبھی جمع کر دیں گے اوران کے عمل میں سے ذرابھی کمی نہیں کریں گے ۔ہرایک اس کمائی کے بدلے میں گروی ہو گاجواس نے کی ہو گی۔‘‘ (طور52: 21)
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-29