سوال
فطرت سے کیا مراد ہے؟
جواب
انسان اپنے خالق اور اس کی ربوبیت کے جس شعوراورخیروشرکی جس معرفت کے ساتھ اس دنیامیں آتا ہے اسے فطرت کہتے ہیں ۔ قرآن کریم میں ایک مقام پراللہ تعالیٰ نے اس بات کوموضوع بنا کرتفصیل سے بیان کیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’پس تم اپنارخ یک سوہوکر دین حنیفی کی طرف کرو ، اس (دین)فطرت کی پیروی کروجس پراللہ نے لوگوں کوپیداکیا۔‘‘ (روم30: 30)
اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو کن باتوں پر پیدا کیا ، اس کا جواب قرآن کریم خوددیتا ہے ۔ سورۂ اعراف کی آیت نمبر172میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ اس نے انسانوں کواپنے خالق اور اپنے پالنے والے کے مکمل تعارف کے بعد اس دنیا میں بھیجا ہے ۔اس رب کا یہ تعارف امتحان کی بنا پر انسانوں کی یادداشت سے تو محو کر دیا گیا ہے ، لیکن صفحۂ فطرت پر اس کے نقوش انمٹ رہے ہیں ۔اوپرسورۂ روم کی جو آیت ہم نے نقل کی ہے اس سے اگلی آیت 31میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ توحید سے وابستگی ہی فطرت انسانی میں ودیعت کردہ دین کی اساس ہے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے :
’’اس کی طرف متوجہ ہواوراس سے ڈرواورنمازکا اہتمام رکھواورمشرکوں میں سے نہ ہو۔‘‘
اپنے خالق کے شعورکے علاوہ جس دوسری چیزکوانسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے وہ نیکی اور بدی یعنی خیروشرکا ایک واضح تصور ہے ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے :
’’اورنفس گواہی دیتا ہے اورجیسا اسے سنوارا۔ پھراس کی نیکی اوربدی اسے سمجھادی کہ مرادکوپہنچ گیاوہ جس سے اس کوپاک کیا اورنا مراد ہوا وہ جس نے اسے آلودہ کیا۔‘‘ (شمس91: 7۔10)
فطرت کایہ تصورہمیں بتاتا ہے کہ انسان اس دنیامیں اندھانہیں آیا ، بلکہ یہ بات واضح ہے کہ انسان پہلے ہی دن سے اپنے خالق کا ایک مکمل شعور اورنیکی اوربدی کا ایک واضح تصور رکھتا ہے ۔فطرت کی یہ رہنمائی چونکہ اصولی نوعیت کی ہے اور انسانی زندگی اور اس کے معمولات کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فطرت کی اس رہنمائی کے ساتھ مزید یہ اہتمام کیا کہ ابتدا ہی سے انسانوں کو نورِ نبوت کی رہنمائی عطا فرمائی۔یہ رہنمائی ہر دور میں فطرت میں پیدا ہونے والے انحرافات سے انسان کوروکتی رہی ہے ۔نبوت کی یہ رہنمائی انسانوں کے لیے اوپرسے ٹھونسی جانے والی کوئی چیز نہیں ، بلکہ یہ فطرت ہی کی پکار کا ایک جواب ہے ۔ اسی لیے اسلام کودینِ فطرت کہا جاتا ہے۔ ایمان و اخلاق کی جس دعوت کواسلام پیش کرتا ہے ، اس کی اساس انسانی فطرت میں پہلے ہی دن سے موجودہے ۔اس بات کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان کیا ہے :
’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہربچہ فطرت پرپیدا ہوتا ہے پھریہ اس کے والدین ہیں جواسے یہودی ، نصرانی اورمجوسی بنادیتے ہیں ‘‘ (بخاری، رقم 1319)
اس حدیث سے بھی قرآن کریم کے بیان کی تائیدہوتی ہے ۔ اس کے مطابق ہربچہ دین فطرت یعنی اسلام پرپیدا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بچہ مسلمان پیدا ہوتا ہے ، بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کے اندراپنے خالق کی توحید کامکمل شعور اور خیروشرکی اساس موجود ہوتی ہے ۔ پھر اس کے بعداس کاماحول ہوتا ہے جواسے اسلام کی سیدھی راہ سے ہٹا کر ان ادیان کی طرف پھیردیتا ہے جن میں تحریف اورملاوٹ ہو چکی ہے ۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-27