سوال
کیا جنت کا تصور ایک عربی افسانہ نہیں ہے ، جس میں دودھ کی نہروں ، سرسبز باغات، حوروں اور شراب وغیرہ کا بہت تذکرہ ملتا ہے؟
جواب
اس دنیا کا ہر کلام اور ہر دعوت ایک اولین مخاطب رکھتا ہے ۔یہی معاملہ قرآن مجید کا ہے جس کے اولین مخاطب عرب تھے ۔ قرآن مجید کا مقصد اہل عرب کو خطاب کر کے اپنی بات پیش کرنا ہی نہیں تھا ، بلکہ ایک اجنبی تصور کو ان کے قلوب میں راسخ کرنا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم نے جب کسی ایسی جگہ کا تذکرہ کرنا چاہا جہاں وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کا لطف اٹھائیں گے تو فطری طور پر اس نے ایک ایسے تصور کومستعار لیا جو اہل عرب کے نزدیک اس مقصد کو بھرپور طریقے سے پورا کرتا تھا۔ عرب کے چٹیل میدانوں اور تپتے ہوئے صحراؤں میں جہاں پانی نایاب ، سبزہ ناپید، سورج بھٹی کی طرح دہکتا، زمین آگ اگلتی اور آسمان شعلے برساتا تھا ، جَنَّاتُ تَجْرِیْ مِن تحتها الانهار'(وہ باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ) کی تعبیر اس مقصدکو سب سے بہتر طور پر بیان کرتی تھی۔
لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جنت بس اسی چیز کا نام ہو گی؟ قرآن نے جگہ جگہ اس بات کو واضح کیا ہے کہ جو کچھ جنت کے حوالے سے بیان کیا جا رہا ہے وہ محض ’نزل‘ ہے ۔ ’نزل‘ کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ محض ابتدائی مہمانی کا سامان ہے اور اصل نعمتیں اس کے بعد آئیں گے ۔ انسان کا شعور چونکہ آج ان نعمتوں کا احاطہ نہیں کرسکتا اس لیے قرآن نے ان کا تذکرہ نہیں کیا بس ایک اصولی بات اس طرح بیان کر دی ہے :
کوئی نفس نہیں جانتا کہ (اہل جنت کے لیے )، ان کے اعمال کے صلے میں ، آنکھو ں کی کیا ٹھنڈک پوشیدہ ہے۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے ان کے لیے راحت کے باغ ہیں جو ان کو ان کے اعمال کے صلہ میں بطور اولین سامان ضیافت ( ’نزل‘ ) کے طور پر حاصل ہوں گے ۔‘‘ ، (سجدہ32: 17۔19)
جنت کے متعلق اصل بات یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے انعام کی جگہ ہے ۔انعام کا تصور ہر علاقے اور خطے کے لیے لوگوں کے لیے قدرے مختلف ہو سکتا ہے ، مگر انعام کیا ہوتا ہے اور نعمت کس چیز کا نام ہے اسے سب جانتے ہیں۔ قرآن نے جب اپنے ابتدائی مخاطبین کی رعایت سے جنت کا بیان کیا تو اس سے اس بات کی نفی ہر گز نہیں ہوتی کہ اگلے زمانوں یا مختلف علاقوں کے رہنے والو ں کے لیے نعمت و انعام کا جو تصور ہے وہ جنت میں نہیں ہو گا۔ آج کے لوگوں کو یہ بات سمجھائی جا سکتی ہے کہ جو ان کا تصور نعمت ہے اسے وہ جنت میں پالیں گے اور ہر معقول آدمی اس بات کو مان لے گا۔لیکن آپ اندازہ کیجیے کہ قرآن اہل عرب کو چھوڑ کر آج کے ایک مغربی انسان کے معیار سے اللہ کے انعام و نعمت کا تذکرہ شروع کر دیتا تو کیا ہوتا؟ قرآن اور اس کے ابتدائی مخاطبین کے درمیان ایک غیر ضروری نزاع کھڑ ا ہوجاتا کہ قرآن اس چیز کو بطور انعام پیش کر رہا ہے جو عربوں کے نزدیک انعام ہی نہیں ہے ۔سردی کے مارے ہوئے مغربی لوگ دھوپ کی خواہش میں مرتے اور سن باتھ لینے کو اپنے آرام کا سبب جانتے ہیں ، یہ چیز گرمی کے ستائے ہوئے اہل عرب سے قرآن پاک اگر بیان کر دیتا تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کا ردعمل کیا ہوتا؟
ایک آخری بات اس حوالے سے مزید عرض ہے ۔ وہ یہ کہ ہم نے جدید ذہن کے لوگوں کو بارہا قرآن میں بیان کردہ جنت کے بیان پر اعتراض کرتے دیکھا ہے ۔باغات، سبزہ، دودھ کی نہر ، شراب ، حورو قصور وغیرہ جیسے قرآنی بیانات لوگوں کو معمولی باتیں لگتے ہیں ۔ گو ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان کی نوعیت کیا ہو گی ، مگر عجیب بات ہے کہ جس آدمی سے ملیے ، دنیا میں وہ اپنی جنت انہی نعمتوں کے درمیان میں قائم کرنا چاہتا ہے ۔اسے اعلیٰ رہائش، حسین بیوی، کھانے پینے کی فراوانی اورسبزہ و شادابی بڑ ی پسند ہوتی ہیں ۔حتیٰ کہ معترضین کی اپنی زندگی بھی انہی چیزوں کی طلب میں گزرتی ہے ۔ جب عملاً انسانوں کی صورت ِحال یہ ہے تو پھر لوگوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قرآن پر اعتراض کریں ۔ قرآن نے تو انسانوں کی فطری طلب کو بیان کیا ہے اور جب تک انسانوں کی فطرت یہ ہے قرآن پاک پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-28