سوال
کیا نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے ؟اگر ہاں تو کن حالات میں اور کیا یہ کام عام طور پر کیا جا سکتا ہے ؟اگر ہاں تو کن حالات میں ؟
جواب
اس موضوع پر استاذ گرامی جناب جاويد احمد صاحب غامدي نے اپنی کتاب میزان میں ‘نماز میں رعایت’ کے زیر عنوان تفصیل سے لکھا ہے ۔ آپ کی سہولت کے لیے ہم اسے ذیل میں نقل کیے دیتے ہیں
”نماز کا وقت کسی خطرے کی حالت میں آ جائے تو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ پیدل چلتے ہوئے یا سواری پر ، جس طرح ممکن ہو ، نماز پڑ ھ لی جائے ۔ اِس میں ، ظاہر ہے کہ جماعت کا اہتمام نہیں ہو گا ، قبلہ رو ہونے کی پابندی بھی برقرار نہ رہے گی اور نماز کے اعمال بھی بعض صورتوں میں اُن کے لیے مقرر کردہ طریقے پر ادا نہ ہو سکیں گے ۔ ارشاد فرمایا ہے
”پھر اگر خطرے کا موقع ہو تو پیدل یا سواری پر، جس طرح چاہے ، پڑ ھ لو۔ لیکن جب امن ہو جائے تو اللہ کو اُسی طریقے سے یا د کرو ، جو اُس نے تمھیں سکھایا ہے ، جسے تم نہیں جانتے تھے ۔” (البقرہ 2 :239)
اِس طرح کی صورت حال کسی سفر میں پیش آ جائے تو قرآن نے مزید فرمایا ہے کہ لوگ نماز میں کمی بھی کر سکتے ہیں ۔
اصطلاح میں اِسے قصر سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کے لیے یہ سنت قائم کی ہے کہ صرف چار رکعت والی نمازیں دو رکعت پڑ ھی جائیں گی ۔ دو اور تین رکعت والی نمازوں میں کوئی کمی نہ ہو گی ۔ چنانچہ فجر اور مغرب کی نمازیں اِس طرح کے موقعوں پر بھی پوری پڑ ھیں گے ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ فجر پہلے ہی دو رکعت ہے اور مغرب دن کے وتر ہیں ، اِن کی یہ حیثیت تبدیل نہیں ہو سکتی ۔
سورۂ نساء میں یہ حکم اللہ تعالیٰ نے اِن الفاظ میں بیان فرمایا ہے
”اور جب تم سفر میں نکلو تو اِس میں کوئی گناہ نہیں کہ نماز میں قصر کر لو، اگر اندیشہ ہو کہ منکرین تمھیں آزمایش میں ڈال دیں گے ۔ اِس لیے کہ یہ منکر تمھارے کھلے ہوئے دشمن ہیں ۔” (النساء 4:101)
نماز میں کمی کرنے اور اُسے چلتے ہوئے یا سواری پر پڑ ھ لینے کی یہ رخصتیں یہاں ‘ اِنْ خِفْتُمْ’ کی شرط کے ساتھ بیان ہوئی ہیں ۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے عام سفروں کی پریشانی، افراتفری اور آپادھاپی کو بھی اِس پر قیاس فرمایا اور اُن میں بالعموم قصر نماز ہی پڑ ھی ہے ۔ اِسی طرح قافلے کو رکنے کی زحمت سے بچانے کے لیے نفل نمازیں بھی سواری پر بیٹھے ہوئے پڑ ھ لی ہیں (بخاری رقم:1104، مسلم رقم:1619)۔سیدنا عمر کا بیان ہے کہ اِس طرح بغیر کسی اندیشے کے نماز قصر کر لینے پر مجھے تعجب ہوا ۔ چنانچہ میں نے پوچھا تو آپ نے فرمایا : یہ اللہ کی عنایت ہے جو اُس نے تم پر کی ہے ، سو اللہ کی اِس عنایت کو قبول کرو۔ (مسلم رقم:1573)
نماز میں تخفیف کی اِس اجازت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کے اوقات میں تخفیف کا استنباط بھی کیا ہے اور اِس طرح کے سفروں میں ظہر وعصر ، اور مغرب اور عشاکی نمازیں جمع کر کے پڑ ھائی ہیں ۔ سیدنا معاذ بن جبل کی روایت ہے کہ غزوۂ تبوک کے سفر میں آپ کا طریقہ بالعموم یہ رہا کہ اگر سورج کوچ سے پہلے ڈھل جاتا تو ظہر و عصر کو جمع کر لیتے اور اگر سورج کے ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو عصر کے لیے اترنے تک ظہر کو موخر کر لیتے تھے ۔ مغرب کی نما زمیں بھی یہی صورت ہوتی ۔ سورج کوچ سے پہلے غروب ہو جاتا تو مغرب اور عشا کو جمع کرتے اور اگر سورج غروب ہونے سے پہلے کوچ کرتے تو عشا کے لیے اترنے تک مغرب کو موخر کر لیتے اور پھر دونوں نمازیں جمع کر کے پڑ ھتے تھے ۔(ابو داؤد رقم:1220)
یہی معاملہ حج کا بھی ہے ۔ اِس میں چونکہ شیطان کے خلاف جنگ کو علامتوں کی زبان میں ممثل کیا جاتا ہے ، اِس لیے تمثیل کے تقاضے سے آپ نے یہ سنت قائم فرمائی کہ لوگ مقیم ہوں یا مسافر، وہ منیٰ میں قصر اور مزدلفہ و عرفات میں جمع اور قصر، دونوں کریں گے ۔
اِس استنباط کا اشارہ خود قرآن میں موجود ہے ۔ سورۂ نساء میں یہ حکم جس آیت پر ختم ہوا ہے ، اُس میں ‘ اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلٰی الْمُؤْمِنِيْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا’ کے الفاظ عربیت کی رو سے تقاضا کرتے ہیں کہ اِن سے پہلے ‘اور وقت کی پابندی کرو ‘ یا اِس طرح کا کوئی جملہ مقدر سمجھا جائے ۔ اِس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوتی ہے کہ قصر کی اجازت کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ نماز کی رکعتوں کے ساتھ اُس کے اوقات میں بھی کمی کر لیں ۔ چنانچہ ہدایت کی گئی کہ جب اطمینان میں ہو جاؤ تو پوری نماز پڑ ھو اور اِس کے لیے مقرر کردہ وقت کی پابندی کرو ، اِس لیے کہ نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے ۔ ”، (میزان: 312-314)
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-02-14