سوال
میں مدینہ کے قریب رہتا ہوں۔ میں نے بغیر کسی دقت و پریشانی کے کئی عمرے کیے ہیں۔ اس سال ہم نے حج کا ارادہ کیا ہے لیکن لوگ چونکہ حج اور اس کے مراسم کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے ، لہٰذا وہ تمتع، فرد اور قران جیسی اصطلاحات اور حج کی ان قسموں کے بارے میں بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ جو لوگ باہر سے آتے ہیں وہ حجِ تمتع کرتے ہیں اور وہ چونکہ حج اور عمرہ ایک ساتھ ادا کرتے ہیں اس لیے اس رعایت سے فائدے اٹھانے کے بدلے میں اُنہیں جانور کی قربانی کرنی پڑ تی ہے ۔مگر وہ لوگ جو اپنے جانور ساتھ لائیں اور حجِ قران کر رہے ہوں ، وہ عمرہ ادا کرنے کے بعد اپنا احرام اُس وقت تک نہیں کھول سکتے جب تک کہ وہ یوم النحر کے دن اپنی قربانی نہ کر لیں۔ میرا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کو شاید یہی پسند ہے کہ حج اور عمرہ الگ الگ ادا کیا جائے۔ یہ میری اپنی تھنکنگ ہے مجھے ، بتائیے کہ کیا میں صحیح سمجھتا ہوں؟
جواب
آپ نے بات کو ٹھیک سمجھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی منشا یہی ہے کہ حج اور عمرہ الگ الگ سفر میں ادا کیے جائیں۔ گویا اصل حج وہی ہے جسے حجِ فرد کا نام دیا گیا ہے۔ تاہم لوگوں کوایک رعایت یہ دی گئی ہے کہ وہ حج کے سفر میں عمرے کی ادائیگی کافائد ہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن اس صورت میں انہیں قربانی کرنی ہو گی یا دس روزے رکھنے ہوں گے ، تین حج کے دنوں میں اور سات حج سے واپسی کے بعد (بقرہ 2: 196)۔ باقی قِران والی بات بھی آپ نے ٹھیک سمجھی ہے کہ یہ حج کی کوئی قسم نہیں ہے ، بلکہ جو لوگ حج کے ساتھ عمرہ ادا کرنا چاہتے ہوں اور وہ لوگ ہدی کے جانور ساتھ لے کر آجائیں تو اس صورت میں وہ عمرہ تو ادا کر لیں گے لیکن اس کے بعد احرام نہیں کھول سکتے۔ وہ اُس وقت احرام کھولیں گے جب دس تاریخ یعنی یوم النحر کو ان کے لائے ہوئے ہدی کے جانوروں کی قربانی ہو جائے۔ وہ اس کے بعد ہی سر منڈوا کر احرام سے باہر آئیں گے۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-02-08