سوال
غصے اور برہمی کی حالت میں دی گئی طلاق کے بارے میں آپ کا کیا نقطۂ نظر ہے (ہمارے ہاں زیادہ تر کیسز اسی نوعیت کے ہوتے ہیں )؟ مختلف اہل علم اس معاملے میں مختلف رائے رکھتے ہیں ، لیکن زیادہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ ایسی طلاق بہر حال واقع اور مؤثر ہوجاتی ہے۔ حالاں کہ قرآن صاف بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے ان اعمال کا مواخذہ نہیں کرتا، جو غیر ارادی طور پر وقوع میں آئیں ، وہ صرف ان اعمال کی پرسش کرے گا جو پختہ عزم و ارادے کے ساتھ انجام دیے جائیں ۔مگر روایتی فقہا کا مؤقف یہ ہے کہ طلاق کے معاملے میں نیت اور عزم و ارادے کی کوئی شرط نہیں ہے اور ان کی اس رائے کی بنیاد وہ روایت ہے جو عام طور پر بیان کی جاتی ہے کہ تین چیزوں کے بارے میں کہی ہوئی بات ہر حال میں قبول کی جائے گی: نکاح، طلاق اور غلام کو آزاد کرنے کے معاملے میں ، چاہے یہ بات ہنسی مذاق میں کہی گئی ہو یا سنجیدگی کے ساتھ۔ بعض فقہا غصے کو بھی تین درجات میں تقسیم کرتے ہیں ، لیکن اب یہ فیصلہ کون کرے گا کہ طلاق دیتے وقت شوہر غصے کے کون سے درجے میں تھا؟
جواب
طلاق دینے کا طریقہ قرآن کریم میں بہت تفصیل کے ساتھ بیان ہو گیا ہے ۔ اس طریقے کے مطابق جب طلاق دی جائے گی وہ موثر ہوجائے گی۔ اس طریقے کی چند موٹی موٹی باتیں درج ذیل ہیں ۔ان کی تفصیل کے لیے آپ استاذ گرامی جاوید احمد غامدی کی کتاب کے باب قانون معاشرت میں طلاق کے عنوان کے تحت مطالعہ کرسکتے ہیں ۔
- طلاق عدت کا لحاظ کر کے دی جائے گی۔یعنی بیوی جب ایام حیض سے فارغ ہوجائے تو تعلق زن و شو قائم کیے بغیر طلاق دی جائے ۔عدت کی مدت تین حیض ہے ۔
- دوران عدت اگر شوہر چاہے تو وہ رجوع کرنے کے فیصلے کا اعلان کر سکتا ہے ۔ ایسی صورت میں وہ دونوں دوبارہ میاں بیوی کی حیثیت سے رہ سکیں گے۔
- شوہر اگر رجوع نہیں کرتا تو عدت کی مدت پوری ہونے پر میاں بیوی کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے ۔اس کے بعد عورت جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے اور چاہے تو اپنے سابقہ شوہر سے بھی دوبارہ نکاح کرسکتی ہے ۔
- اگر مرد نے دوران عدت رجوع کر لیا ہے تو ان کا رشتہ نکاح باقی ہے ، مگر طلاق دے کر رجوع کرنے کا یہ حق شوہر کو ایک نکاح میں صرف دو دفعہ حاصل ہے ۔یعنی اگر پہلی دفعہ رجوع کر لیا تو زندگی میں صرف ایک موقع اور ہوتا ہے کہ وہ طلاق دے کر رجوع کر لے ۔ تیسری دفعہ طلاق اگر دی تو پھر نہ رجوع کرسکتا ہے اور نہ اس سے دوبارہ نکاح کرسکتا ہے ۔البتہ ایک رعایت اس ضمن میں یہ دی گئی ہے کہ خاتون اگر کسی اور مرد سے نکاح کر لے اور وہاں سے بھی خاتون کو طلاق مل جائے یا وہ بیوہ ہوجائے تو پھر سابقہ شوہر سے نکاح کرنا ممکن ہے ۔
- شوہر طلاق دے یا رجوع کرے اسے چاہیے کہ وہ اس موقع پر دو ثقہ مسلمانوں کو گواہ بنالے ۔
یہ قرآن پاک کا بیان کردہ طلاق دینے کا وہ طریقہ ہے جس پر عمل کرنے میں کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ اس طریقے میں طلاق غصے میں دی جائے یا بغیر غصے کے ، طلاق بہرحال ہوجائے گی۔ طلاق میں اصل مسئلہ غصے کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتا ، بلکہ اس وقت ہوتا ہے جب قرآن کریم کے بیان کردہ طریقے کی خلاف ورزی کر کے طلاق دی جائے۔ مثلاً تین طلاق ایک ساتھ دے دی یا ناپاکی کے ایام میں طلاق دے دی جائے ۔ ایسی صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا طلاق کو موثر مانا جائے یا نہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خلاف ورزی کے جب ایسے معاملات لائے گئے تو آپ نے ہر معاملے میں تفصیلی مسئلہ سننے کے بعد اس خاص معاملے کے اعتبار سے کبھی ایک فیصلہ دیا اور کبھی دوسرا۔ جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جب خلاف ورزی ہوجائے تو مسئلہ شریعت کے دائرے سے نکل کر عدالتی دائرے میں چلا تا ہے اور پھر عدالت پوری صورتحال کو سمجھ کر کوئی فیصلہ دے گی۔آج بھی جب کوئی ایسا معاملہ پیش آئے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہر کیس کا تفصیلی جائزہ لے کر اور فریقین کے بیانات سن کر ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ اور حالات کے مطابق کبھی طلاق مؤثر قرار پائے گی تو کبھی غیر مؤثر۔
جہاں تک غصے کے پس منظر میں آ پ کی نقل کردہ روایت کا تعلق ہے تو اس کا اصل متن درج ذیل ہے :
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کی حقیقت بھی حقیقت ہی ہے اور مذاق بھی حقیقت ہی ہے ، نکاح ، طلاق ، اور رجوع کرنا ۔ ‘‘
ہمارے نزدیک یہ روایت قابل قبول نہیں ۔اس کا سبب یہ ہے کہ ایک تو یہ روایت صحیح کے درجے کی نہیں ، بلکہ درجۂ حسن کی ہے جو کہ صحیح سے کم درجہ ہے اور دوسرے اس کے راویوں کے ضبط و حفظ پر محدثین نے سوالات اٹھائے ہیں۔ غصے کے معاملے میں یہ روایت اس لیے بھی پیش نہیں کی جا سکتی کہ اس میں غصے کا نہیں ، بلکہ مذاق کا ذکر ہے۔ تاہم جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ اصل مسئلہ غصے کا نہیں طریقۂ کار کا ہے ۔ اگر ایک شخص نے غصے کے باجود طریقہ ٹھیک اختیار کیا تب بھی طلاق ہوجائے گی۔ یا قانون کی خلاف ورزی کر دی ، مگر انتہائی غصے میں ہونے کے باجود وہ یہ چاہتا ہے کہ جو تین حق اسے اللہ تعالیٰ نے دیے تھے وہ ان سے ایک ساتھ ہی فارغ ہونا چاہتا ہے تب بھی طلاق ہوجائے گی۔لیکن اگر کوئی آدمی یہ عذر پیش کرتا ہے کہ غصے سے اس کا دماغ ماؤف ہو گیا تھا اور بلا اختیار و ارادہ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نکلی جو قانون کی خلاف ورزی تھی تو اس صورت میں عدالت اس کی بات کا جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کرے گی۔ ایسی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہماری رہنمائی کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’لا طلاق ولا عتاق فی اغلاق‘ (غصے سے مغلوب ہوکر دی گئی طلاق موثر ہوتی ہے نہ غلام کی آزادی کا فیصلہ (ابوداؤد، رقم 2193)۔ اس فرمان سے یہ بات نکلتی ہے کہ غصے سے مغلوب ہونے کی شکل میں آدمی کا عذر قابل قبول ہو سکتا ہے ۔تاہم اس طرح کی تمام باتوں کا فیصلہ عدالت کرے گی۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-23