سوال
میں اپنے فارم کو ایک سال کے لیے متعین شرحِ منافع پر ٹھیکے پر دینا چاہتا ہوں ۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟
جواب
ہمارے علم کے مطابق پاکستان میں جوزمین ٹھیکے یابٹائی پر مزارع کودی جاتی ہے اس میں تین طریقے استعمال کیے جاتے ہیں: پہلے طریقے میں مزارع کوکاشت کے لیے دی گئی زمین کے دوحصے کر لیے جاتے ہیں ۔زمین کے ایک حصے میں ہونے والی پیداوارکسان کواوردوسرے حصے کی پیداوارزمیندارکودی جاتی ہے ۔دوسرے میں یہ طے ہوتا ہے کہ ایک متعین رقم زمین کے مالک کو دی جائے گی۔پیداوارچاہے کتنی بھی ہو، یہ رقم کسان کو ہر حال میں ادا کرنی ہو گی۔تیسرے طریقے میں کل پیداوار کا ایک خاص حصہ مثلاًدس فیصدیابیس فیصدزمیندارکودیا جاتا ہے اورباقی حصہ مزارع کوملتا ہے۔
پہلے طریقے میں عملاً ایسا ہوتا ہے کہ زمین کابہترحصہ زمیندارخودلے لیتا ہے اوروہ حصہ کسان کودے دیتا ہے جس کی پیداوارناقص ہوتی ہے ۔اس لیے رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم نے اسے ناجائز قرار دے دیا ہے ، (بخاری ، رقم2332)۔ دوسرے طریقے میں اس بات کا امکان ہے کہ مزارع یاکسان پرظلم ہو گا کیونکہ اگرپیداوارنہ ہو یابہت کم ہو یاقیمتیں گرجائیں ، ان تمام حالات کے باوجودکسان کوایک خاص رقم زمیندارکوہرحال میں دینی ہو گی۔اس صورتحال سے بچنے کے لیے ایک طریقہ یہ ممکن ہے کہ معاملہ صرف ایک سیزن کے لیے نہ کیا جائے ، بلکہ کئی سیزن کے لیے کیا جائے ۔ کیونکہ فصل ایک دفعہ خراب ہو سکتی ہے ، بار بار خراب نہیں ہوتی۔تاہم اس معاملے میں انصاف کے قریب طریقہ وہی ہے جوسب سے آخرمیں بیان ہوا ہے ۔یعنی کل پیداوار باہمی رضامندی سے طے کردہ تناسب کے ساتھ فریقین میں تقسیم ہوجائے ۔پیداوار جتنی ہواور جیسی بھی ہو ، فصل کٹنے پر مقررہ تناسب سے دونوں فریقوں کو ان کا حصہ مل جانا چاہیے ۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-23