سوال
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو کیوں پیدا کیا؟
جواب
قرآن کریم سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تو اس پورے منصوبے اور اس کی حکمتوں سے فرشتوں کو اس طرح مطلع کیا:
’’اور(یادکرو)جبکہ تمھارے پروردگارنے فرشتوں سے کہاکہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔انھوں نے کہا:کیاتواس میں اس کو خلیفہ مقررکرے گاجواس میں فسادمچائے اورخون ریزی کرے ، اورہم توتیری حمدکے ساتھ تیری تسبیح کرتے ہی ہیں اورتیری پاکی بیان کرتے ہی ہیں ؟اس نے کہا:میں جانتا ہوں جوتم نہیں جانتے اوراس نے سکھادیے آدم کوسارے نام۔ پھران کوفرشتوں کے سامنے پیش کیا اورکہاکہ اگرتم سچے ہوتومجھے ان لوگوں کے ناموں سے آگاہ کروانھوں نے کہاکہ توپاک ہے ۔ ہمیں توتونے جوکچھ بتایا ہے اس کے سواکوئی علم نہیں ۔بے شک توہی علم والا اورحکمت والا ہے کہا:اے آدم!ان کوبتاؤان لوگوں کے نام۔توجب اس نے بتائے ان کوان لوگوں کے نام تواس نے کہا:کیامیں نے تم سے نہیں کہاکہ آسمانوں اورزمین کے بھید کو میں ہی جانتا ہوں ، اورمیں جانتا ہوں اس چیز کوجس کوتم ظاہرکرتے ہواورجس کوتم چھپاتے تھے ۔اوریادکروجب ہم نے فرشتوں سے کہاکہ آدم کوسجدہ کروتوانھوں نے سجدہ کیامگر ابلیس نے ۔اس نے انکارکیا اورگھمنڈکیا اورکافروں میں سے بن گیا۔ ‘‘ ، (البقرہ2: 30۔34)
ان آیات میں آپ کے سوال کے حوالے سے درج ذیل باتیں اہم ہیں :
۱) انسا ن کو بحیثیت ایک ’خلیفہ ‘ کے پیدا کیا گیا ۔ خلیفہ عربی زبان میں تین معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔جانشین، نائب اور حکمران ۔ یہاں پہلے دو معنوں کا کوئی قرینہ نہیں پایا جاتا۔ یعنی کسی پیشرو کا ذکر نہیں کہ اس کا جانشین مانا جائے اور کوئی اصل مذکور نہیں جس کے نائب کا بیان مانا جائے ۔ یہاں صرف حکمران اور بادشاہ کا مفہوم ہی موزوں ہے جیسا کہ حضرت داؤد جو فلسطین کے حکمران تھے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اے داؤد!ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ(حکمران) بنایا تو لوگوں کے درمیان حق و عدل کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمھیں اللہ کی راہ سے ہٹادے ۔ (ص38: 26)
چنانچہ ان آیات میں انسان کے خلیفہ ہونے سے مراد یہی ہے کہ اسے زمین میں ایک صاحب اقتدار اور صاحب اختیار ہستی کے طور پر پیدا کیا جا رہا ہے ۔
۲) اس خلیفہ سے وہی کچھ مقصود تھا جس کا ذکر اوپر حضرت داؤد سے کیا گیا ۔یعنی حق کی پیروی اور خواہش نفس کی پیروی سے پرہیز ۔
۳) فرشتوں نے اپنی عبادات کا ذکر کیا ۔ انسان بھی حق کی پیروی میں رب کی عبادت کرتے ہیں ۔مگر انسان فرشتوں کی طرح خد اکی حضوری میں نہیں جیتا ، بلکہ اس کے اور خدا کے درمیان غیب کا پردہ حائل ہے ۔یہ وہ چیز ہے جو انسان کی عبادت اور اطاعت کو بہت قیمتی بنادیتی ہے ۔انسان کے پاس ہمیشہ یہ اختیار رہتا ہے کہ وہ خد اکی نافرمانی کرے اور خواہش نفس کی پیروی کرے ، مگر جب غیب میں رہتے ہوئے وہ ایسا کرنے سے بچتا ہے تو یقیناً اس کی عبادت اور اطاعت کو ایک امتیاز حاصل ہوجاتا ہے جو فرشتوں کی عبادت کو حاصل نہیں ہو سکتا۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-29