تحقیق اور تقلید

17

سوال

سوال یہ ہے کہ کیا مجھ پر صرف وہی چیزیں فرض ہیں اور میں انہی باتوں کے لیے جواب دہ ہوں جومیں نے بذاتِ خود نیک نیتی سے تحقیق کر کے قرآن و حدیث سے اخذ کی ہوں؟ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنی صلاحیت تو دی ہے کہ میں اندھی تقلید کرنے کے بجائے ، خود اسلام کو سمجھوں یا کم از کم سمجھنے کی کوشش تو کرسکوں ، اور پھر یہ کہ میں رائج الوقت اسلام سے پوری طرح مطمئن بھی نہیں ہوں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے

جواب

یہ ایک بڑ ی مبارک بات ہے کہ آپ میں اندھی تقلید سے بچنے کا جذبہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے آپ پر صرف اتنی ذمہ داری ہے کہ جو کچھ آپ اپنے ماحول میں اور اردگرد مذہب کے نام پر پائیں ، اس میں سے جس چیز پر آپ کو کوئی کھٹک اور کوئی سوال پیدا ہوجائے اس پر تحقیق کیجیے۔ ایک عام آدمی کی حیثیت سے آپ کی تحقیق کا طریقہ یہ ہو گا کہ آپ ایک مسئلے پر تمام اہل علم کی آرا اور ان کے دلائل جاننے کی کوشش کریں۔ ان کے دلائل کو قرآن و سنت اور معقولیت کی کسوٹی پر پرکھیں۔ اپنا سینہ تعصب سے اور دماغ تکبر سے پاک رکھیں۔ اپنا مقصود صرف اللہ کی رضا کو قرار دیں۔ جو نتیجہ بھی سامنے آئے اسے کھلے دل سے تسلیم کریں۔ جو چیز واضح ہوجائے اس پر قائم ہوجائیے ، لیکن دل دماغ کے دریچے پھر بھی وا رکھیے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی بندۂ خدا آپ کی غلطی آئندہ واضح کر دے۔ یہی دین کا مطلوب طریقہ ہے۔

یہ بات بھی سمجھ لیں کہ اس دنیامیں انسان صرف انہی باتوں کو نہیں مانتا جنہیں اس نے اپنی تحقیق سے سمجھا ہے ، نہ ایسا کرنا ممکن ہے۔ انسان ہر اس بات کو مانتا اور اس پر عمل کرتا ہے جو اسے ماحول اور ورثے سے ملی ہو اور اسے ٹھیک لگ رہی ہو۔ انسان ایسی تمام باتوں پر عمل کرنے کا مکلف ہے۔ اس پر تحقیق کی ذمہ داری صرف اس وقت ہے جب کسی بات میں کوئی سوال اور کھٹک پیدا ہوجائے۔ مختصر یہ کہ عمل کی ذمہ داری ہر اس چیز کی ہے جسے انسان مان رہا ہے اور تحقیق کی ذمہ داری صرف اس شے پر ہے جس پر سوال پیدا ہو جائے۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-02-07

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading