اقامتِ صلوٰۃ کا مفہوم

21

سوال

اقامتِ صلوٰۃ کا کیا مفہوم ہے؟ سورۂ حج (22)کی آیت 41 کے حوالے سے کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس کا مطلب محض انفرادی طور پر اپنی اپنی نمازیں پڑ ھ لینا ہی نہیں ، بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہے اور وہ یہ کہ ایک پورا ’الوہی نظام‘ برپا کیا جائے ۔ اکیلے اپنی اپنی نمازیں ادا کر لینا اس آیت میں مراد ’مطلوبہ الوہی نظام‘ کا ایک چھوٹا سا حصہ تو ہو سکتا ہے لیکن اقامتِ صلوٰۃ کا مفہوم یقینا ایک ایسا نظام ہے جو سارے معاشرے کو محیط ہو۔ اس پر ذرا روشنی ڈال دیجیے۔

جواب

آپ نے اپنے سوال میں جس آیت کا حوالہ دیا ہے اس کا ترجمہ درج ذیل ہے:

’’یہ لوگ ہیں کہ اگرہم ان کوسرزمین میں اقتدار بخشیں گے تو وہ نمازکا اہتمام کریں گے ، زکوۃ ادا کریں گے ، معروف کاحکم دیں گے اورمنکر سے روکیں گے ۔اورانجام کارکامعاملہ اللہ ہی کے اختیارمیں ہے ۔‘‘(حج41:22)

آپ کے سوال سے ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک اس آیت میں اقامت صلوٰۃ کا مفہوم سادہ معنوں میں نماز پڑ ھ لینا ہی نہیں ، بلکہ اس کی معنویت اس سے کچھ زیادہ ہے ۔ہم آپ کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں ۔تاہم آپ کی اگلی بات کہ اس سے مراد ایک مکمل الوہی نظام یا نظام ربوبیت (complete divine system) کا قیام ہے ، ہمارے نزدیک محل نظر ہے ، آیت کے الفاظ کی رو سے ۔اقامتِ صلوٰۃ کے مفہوم میں یہ اضافہ تو ہو سکتا ہے کہ ’’اقامت صلوٰۃ‘‘ کا عمل اجتماعی نوعیت کا ہوجائے ، مگر اس سے آگے بڑ ھ کر اس سے ایک مکمل نظام کی بات اخذ کرنا درست نہیں ۔ہمارے نزدیک اس حوالے سے وہی بات درست ہے جسے امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر تدبر قران میں بیان کیا ہے ۔ سورۂ بقرہ(2)کی آیت 3کے تحت انہوں نے وہ تمام مفاہیم بیان کیے ہیں جو اقامت صلوٰۃ کے تحت آتے ہیں ۔ آخر میں انہوں نے سورۂ حج کی زیر بحث آیت کے حوالے سے لکھا ہے:

’’چھٹی چیزجمعہ وجماعت کاقیام واہتمام ہے ۔خصوصیت کے ساتھ جب امت یا امام کی کی طرف اس کی نسبت کی جاتی ہے تب تو واضح طورپرجمعہ وجماعت کاقیام واہتمام ہی مدنظرہوتا ہے۔ مثلاً ملاحظہ ہو ، الَّذِيْنَ إِن مَّکَّنَّاهُمْ فِيْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّکَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنکَرِ (اگران کوزمین میں اقتداربخشیں گے تو وہ نمازقائم کریں گے ، زکوۃ دیں گے ، معروف کاحکم دیں گے اورمنکرسے روکیں گے ، (41۔حج)حضرت ابراہیم علیہ سلام کی دعاجس میں انہوں نے اپنی ذریت کامشن بتایا ہے ، ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے : رَّبَّنَا إِنِّيْ أَسْکَنتُ مِن ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِندَ بَيْْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيْمُواْ الصَّلاَةَ(37-ابراهيم)(اے ہمارے رب میں نے اپنی اولادمیں سے بعض کواس بن کھیتی کی زمین میں تیرے محترم گھرکے پاس بسایا ہے ، اے ہمارے رب ، تاکہ یہ نمازقائم کرسکیں )‘‘ تدبر:92/1

یہی وہ مفہوم ہے جو ہمارے نزدیک یہاں مراد ہے ۔ خیال رہے کہ نزول قرآن کے وقت نماز کا لفظ جب قرآن پاک میں آیا توایسا نہیں تھا کہ لوگوں کو اچانک معلوم ہوا کہ نماز بھی ایک چیز ہوتی ہے ۔ نماز قرآن کریم کے نزول سے ہزاروں برس پہلے سے پڑ ھی جا رہی تھی۔جیسا کہ اوپر کے اقتباس میں سورۂ ابراہیم کی آیت کے حوالے سے ثابت ہے کہ یہ عبادت حضرت ابراہیم کے زمانے سے موجود تھی۔ البتہ قریش نے اس میں بہت کچھ بدعات داخل کر دی تھیں جن کی اصلاح کر دی گئی۔قرآن نے جب اقامت صلوٰۃ کا لفظ استعمال کیا تو سب کو معلوم تھا کہ اس کا مصداق کیا چیز ہے ۔ قرآن نے نماز کا تعارف نہیں کرایا اس کی تاکید کی ہے ۔

اس پورے پس منظر میں آپ دیکھیں گے تو معلوم ہو گا کہ اقامت صلوٰۃ سے نماز کے علاوہ کسی قسم کا نظام مراد لینا اس کے سوا ممکن نہیں کہ الفاظ کا رشتہ معنی سے کاٹ دیا جائے ۔یہ مان لیا جائے کہ حضرت ابراہیم سے لے کر نزول قرآن تک اور اس وقت سے لے کر آج تک نماز کے اسم کا مسمی کسی کو معلوم نہیں تھا۔ یہ کام اگر کیا جائے گا تو پھر قرآن تو کیا دنیا کی ہر کتاب کے ایسے معنی وجود میں آجائیں گے جو کتاب کے مصنف کے سان گمان میں بھی نہیں گزریں ہوں گے ۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-02-11

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading