مسافروں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں زکوٰۃ کا استعمال

26

سوال

میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے گلی محلے کے راستوں کی تکالیف کو دور کرنے کے اخراجات میں اپنے اموالِ زکوٰۃ کو صرف کرسکتے ہیں یا نہیں؟ ہم اگر ایسا کریں تودین کی رو سے ہمارے اِس طرح کے عمل کی کیا حیثیت ہو گی؟ کیا ایسا کرنا درست ہو گا؟

جواب

زکوٰۃ کی رقم کن جگہوں پر خرچ کی جا سکتی ہے ، اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے خود قرآنِ کریم میں دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ہمارے نقطۂ نظر کے مطابق مذکورہ آیت میں مسافر وں کی جو مد بیان ہوئی ہے وہ براہِ راست مسافروں کی مدد کے ساتھ ساتھ ان کی فلاح و بہبود کے تمام کاموں کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ ان کے لیے سرائے ، بیت الخلا یاآرام گاہ تعمیر کرنا، ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرنا، ان کے لیے سڑ کیں اور پل تعمیر کرنا، راستوں کی صفائی کا انتظام اور ان کو بہتر بنانا وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔ اس فہم کی روشنی میں آپ اپنی زکوٰۃ کی رقم کوعلاقے کے لوگوں کے لیے بہتر سفری سہولیات فراہم کرنے میں بلا جھجک خرچ کر سکتے ہیں ۔ان میں یقینا راستے کی تکالیف دور کرنابھی شامل ہے۔ تاہم خیال رہے کہ مالِ زکوٰۃ اجتماعی کاموں میں خرچ ہونا چاہیے نہ کہ اپنے گھر کے سامنے اوراپنی گلی کے ان مسائل کے حل میں خرچ ہو جن سے انسان کو خود پریشانی کا سامنا ہو۔

’’صدقات توبس فقرا ، مسکینوں ، عاملینِ صدقات اورتالیفِ قلوب کے سزاواروں کے لیے ہیں اوراس لیے کے یہ گردنوں کے چھڑ انے ، تاوان زدوں کے سنبھالنے ، اللہ کی راہ اور مسافروں کی امدادمیں خرچ کیے جائیں۔ یہ اللہ کامقررکردہ فریضہ ہے۔ اوراللہ علم والا اور حکمت والا ہے۔‘‘ ، (التوبہ9: 60)

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-02-08

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading