مرتد ہوکر دوبارہ مسلمان ہونا

48

سوال

اگر ایک مسلمان اپنا دین چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کر لے تو پھر کیا وہ دوبارہ اسلام قبول کر سکتا ہے یا نہیں ؟ دوسرے یہ کہ اگر وہ دوسرا دین چھوڑ کر دوبارہ اسلام قبول کر لیتا ہے تو پھر کیا وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہ سکتا ہے یا نہیں ؟

جواب

اس دنیا میں کسی انسان کی سب سے بڑ ی بدنصیبی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کودین اسلام پر پیدا کریں اور پھر وہ شخص اس نعمت کا فائدہ اٹھانے کے بجائے دین اسلام کو ترک کر کے کوئی دوسرا دین اختیار کر لے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ دین ان کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے اور انسانوں سے وہ اس کے سوا کوئی اور دین ہرگز قبول نہ کریں گے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

”اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ ۔ ۔ اور جس نے اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین چاہا تو وہ اس سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نامرادوں میں سے ہو گا”۔ (آل عمران3: 85,19)

ایمان کے بعد کفراختیارکرنا ایک بہت بڑ ا جرم ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ اس حوالے سے وعیدیں آئی ہیں:

”بیشک جن لوگو ں نے کفر کیا اپنے ایمان کے بعد، اور اپنے کفر میں بڑ ھتے گئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں ہو گی اور یہی لوگ اصلی گمراہ ہیں ۔ بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور اسی کفر کی حالت میں مر گئے ، اگر وہ زمین بھر سونا بھی فدیہ میں دیں تو قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان کے لیے عذاب دردناک ہے اور ان کا کوئی مدد گار نہ ہو گا”۔ (آل عمران3: 90-91)

”بے شک جو لوگ ایمان لائے ، پھر کفر کیا، پھر ایمان لائے ، پھر کفر کیا، پھر کفر میں بڑ ھتے گئے ، اللہ نہ ان کی مغفرت فرمانے والا ہے اور نہ ان کو راہ دکھانے والا ہے ”۔ (النساء4: 137)

”اے ایمان والو! جو تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گاتو (اللہ کو کوئی پرواہ نہیں) ، وہ جلد ایسے لوگوں کو اٹھائے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے ، وہ مسلمانوں کے لیے نرم مزاج اور کافروں کے مقابل میں سخت ہوں گے ، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، وہ جس کو چاہے بخشے گا۔ اور اللہ بڑ ی سمائی رکھنے والا اور علم رکھنے والا ہے ”۔ (المائدہ5: 54)

”جو اپنے ایمان لانے کے بعد اللہ کا کفر کرے گا، بجز اس کے جس پر جبر کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو، لیکن جو کفر کے لیے سینہ کھول دے گا تو ان پر اللہ کا غضب اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے ”۔ (النحل16: 106)

ان آیات سے یہ بات واضح ہے کہ ارتداد (apostasy) کتنا بڑ ا جرم ہے اور اس کی سزا کتنی سخت ہے۔اس اصولی بات کے بعد ہم آپ کے سوالات کے جواب ذیل میں پیش کر رہے ہیں :

۱) کوئی شخص اگر ارتداد اختیار کر لیتا ہے تواس جرم کی تمام تر شناعت کے باجود اس پر اسلام دوبارہ قبول کرنے کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔اسلام کا ایک عمومی اصول ہے کہ سچی توبہ ہر گناہ کو معاف کر دیتی ہے ، چاہے وہ ارتداد جیسا سنگین گناہ ہی کیو ں نہ ہو۔ مرتد اگر اسلام اختیار کر لیتا ہے تو یقینا یہ توبہ اور فلاح کاراستہ ہے ۔

۲) جو شخص ارتداد اختیار کر لیتا ہے اس کا نکاح اس کی مسلمان بیوی کے ساتھ باقی نہیں رہتا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو جب مسلمان عورتیں ہجرت کر کے تمھارے پاس آئیں تو (ان کے مومن ہونے کی) جانچ پڑ تال کر لو اور ان کے ایمان کی حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ پھر جب تمھیں معلوم ہوجائے کہ وہ مومن ہیں تو ان کو کفار کی طرف واپس نہ کرو۔نہ وہ کفار کے لیے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیے حلال”، (ممتحنہ 10 :60)

اس آیت کا آخری جملہ بالکل واضح ہے کہ کفر و اسلام میں نکاح کا تعلق باقی نہیں رہ سکتا۔ تاہم وہ شخص اگر دوبارہ مسلمان ہوجاتا ہے تو پھر اپنے قبول اسلام اور بیوی کی رضامندی کے بعد وہ اس بات کا اہل ہو گا کہ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہ سکے ۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-02-14

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading