سوال
میں سویڈن کی ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔وہ ایک غیر مسلم ہے۔ میں نے اسے انگریزی ترجمے والا قرآن مجید بھیجا تھا، جس کا اس نے مطالعہ کیا اور اسے دین اسلام پسند آیا۔ وہ مسلمان ہونا چاہتی ہے۔
میں اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ میں کسی اور لڑکی سے شادی کروں، لیکن میرے والدین اس پر بالکل راضی نہیں ہیں کہ میں کسی انگریز لڑکی سے شادی کروں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر تم اس سے شادی کرو گے تو پھر تمھیں ہمارا گھر چھوڑنا پڑے گا۔اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے۔
جواب
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہر انسان شادی کرنے میں آزاد ہے، لیکن اسے خواہ مخواہ اپنے اولیا (والدین) کی مرضی کے بغیر شادی نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ اس سے معاشرے میں بہت فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے۔ اس بات کو استاذ محترم غامدی صاحب نے اپنی کتاب ”میزان” کے باب ”قانون معاشرت” میں درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
”…یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ نکاح خاندان کے جس ادارے کو وجود میں لانے کے لیے کیا جاتا ہے ، اُس کی حرمت کا تقاضا ہے کہ یہ والدین اور سرپرستوں کو ساتھ لے کر اور اُن کی رضا مندی سے کیا جائے ۔ اِس میں شبہ نہیں کہ نکاح میں فیصلہ اصلاً مردو عورت کرتے ہیں اور اُن کے علانیہ ایجاب و قبول سے یہ منعقد ہو جاتا ہے ، لیکن اولیا کا اذن اگر اُس میں شامل نہیں ہے تو اِس کی کوئی معقول وجہ لازماً سامنے آنی چاہیے ۔ یہ نہ ہو تو معاشرے کا نظم اجتماعی یہ حق رکھتا ہے کہ اِس طرح کا نکاح نہ ہونے دے ۔’لا نکاح الا بولی'(سرپرست کے بغیر کوئی نکاح نہیں) اور اِس طرح کی دوسری روایتوں میں یہی بات بیان ہوئی ہے ۔”(٤١٩)
آپ اپنی عمر کے جذباتی دور سے گزر رہے ہیں۔ اس عمر میں آدمی اکثر چیزوں کو اپنی معلومات کی کمی، جذبات کی شدت اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے بہت کوتاہ نظری سے دیکھتا اور بڑی بھیانک غلطیاں کرتا ہے۔
چنانچہ میرا آپ کو یہ مشورہ ہے کہ آپ اپنے والدین کے اختلاف پر بہت غور کریں۔ ان کے اس اختلاف کی کیا وجہ ہے ،یہ بات دوسرے لوگوں سے بھی سمجھیں۔ اسی نوعیت کی دوسری بہت سی شادیاں جو اس دنیا میں ہوئی ہیں، ان کے نتائج اور عواقب پر بھی غور کریں۔ اپنے آپ کو اور اس لڑکی کو دنیا کے دوسرے لوگوں سے بہت مختلف نہ سمجھیں اور کم از کم ایک دو سال اچھی طرح غور کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں۔
مجیب: Muhammad Rafi Mufti
اشاعت اول: 2015-06-27