سوال
اس بات پر اصرار کہ ہم کسی چیز کو دیکھنے کے بعد اسے مانیں گے، کیا یہ علمی رویہ ہے؟ کیونکہ ایک زمانے میں سائنس کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ ہم ہر چیز کو دیکھ لیں گے اور کائنات پر عبور حاصل کر لیں گے۔
جواب
یہ کوئی علمی رویہ نہیں ہے۔ اگر کوئی انسان اصرار کرے کہ میں صرف انھی چیزوں کو مانوں گا جنھیں میں دیکھ سکوں یا جنھیں حواس کی گرفت میں لے سکوں تو اس کا علم انتہائی محدود ہو جائے گا۔ جہاں تک سائنس کے دعویٰ کا تعلق ہے تو اب سائنس میں بھی یہ بات نہیں رہی۔ ہائزن برگ کے قانون عدم تعین کے بعد سائنس نے بھی اپنی عاجزی کا اعتراف کر لیا ہے۔ وہ بھی اب یہ جانتے ہیں کہ انسان کی صلاحیتوں کے حدود کیا ہیں۔ انسان صرف انھی چیزوں کو نہیں مانتا جو اس کے حواس کی گرفت میں آ جاتی ہیں۔ دیکھ کر تو جانور بھی مانتے ہیں، سونگھ کر اور سن کر وہ بھی اپنے تحفظ کا سامان کرتے ہیں۔ انسان کو اللہ نے عقل جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ عقل محسوس سے نا محسوس کا استنباط (Deduct) کرتی ہے۔ یعنی جو چیزیں ہمارے حواس کی گرفت میں آتی ہیں ان کے ذریعے سے ان چیزوں کو جان لینا،جو حواس کی گرفت میں نہیں آتیں،یہی انسان کا کمال ہے اور یہ عین علمی اور عقلی طریقہ ہے۔ آپ کا سارا علم اسی پر مبنی ہے۔ اس وقت جو کچھ بھی آپ کے پاس علم ہے،جس پر انسانیت فخر کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے سامنے تھا، ہم نے اس کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کی ہے۔ یعنی ہمارے سامنے ایک چیز موجود ہوتی ہے، ہمارے سامنے کچھ مظاہر ہوتے ہیں۔ ہم ان کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر عقلی طریقے سے استنباط کر لیتے ہیں کہ یہ چیز اس کے پیچھے ہو گی۔ استقرائی منطق یہیں سے پیدا ہوئی ہے کہ انسان دنیا کے اندر جو چیزیں موجود ہیں، ان کا استقرا (موازنہ)کرتا ہے، ان کو جمع کرتا ہے ،پھر اس سے نتائج نکالتا ہے۔ یہ نتائج نکالنا، تجزیہ کرنا، پیچھے جھانک لینا، محسوس سے نامحسوس تک پہنچ جانا، گرتے ہوئے سیب کو دیکھ کر کشش ثقل کے تصور کا استنباط کر لینا، یہی انسانیت کا شرف ہے۔
مجیب: Javed Ahmad Ghamidi
اشاعت اول: 2015-06-22