سوال
آج کل مہنگائی عروج پر ہے۔ لوگ فقر و فاقے کی وجہ سے اپنے بچوں کے ساتھ خودکشی کر رہے ہیں۔ کیا اس اقدام کی اللہ تعالیٰ کے ہاں معافی ہے اور اس اقدام کا اصل قصور وار کون ہے؟
جواب
اس ضمن میں ایک اصولی بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہر وہ چیز جو غلط ہے، وہ ہمیشہ غلط رہے گی۔ جھوٹ،بددیانتی، رشوت غلط ہے اور ہمیشہ غلط رہے گی۔ یہی معاملہ خودکشی کا ہے۔ یہ ایک گناہ کا کام ہے اور ہمیشہ گناہ ہی رہے گا۔ یہ ایک بالکل دوسری بات ہے کہ آپ نے کسی مجبوری کی وجہ سے کسی غلط کام کا ارتکاب کیا ہے۔ مجبوری کا ایک اصول قرآن مجید میں بیان ہو گیا ہے کہ اللہ چاہے گا تو اس کی رعایت دے دے گا۔ جس طرح حرام کے بارے میں فرمایا گیاہے کہ
‘فمن اضطر غير باغ ولا عاد’ ( انعام٦: ١٤٥)
اگر کوئی آدمی مجبور یا مضطر ہو گیا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ اٹھا دیتے ہیں، اس کا حساب کتاب نرم ہو جاتا ہے۔ یہی چیز اس معاملے میں بھی ہو گی۔
جب کوئی چیز حرام قرار دی جاتی ہے تو اس کی کوئی وجہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو امتحان کے لیے بھیجا ہے۔ جب ایک آدمی خود کشی کرتا ہے تو گویا وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری موت کے بارے میں جو فیصلہ کر رکھا ہے کہ فلاں وقت میں آنی چاہیے، وہ فیصلہ غلط ہے، میں اس کو نہیں مانتا۔ وہ اس کے خلاف بغاوت کر دیتا ہے۔ اس وجہ سے یہ ایک بڑا جرم ہے۔ اگر اس طرح کا کوئی اقدام واقعی کسی مجبوری کی حالت میں کیا گیا ہے تو قرآن نے بڑے سے بڑے جرم کے بارے میں بھی یہ اصول بیان کر دیا ہے کہ مجبوری کی رعایت ملے گی۔
مجیب: Javed Ahmad Ghamidi
اشاعت اول: 2015-06-21