سوال
اسلام میں پردے کے اصل احکام کیا ہیں؟
جواب
میں پردے کے بجائے آداب کا لفظ زیادہ موزوں سمجھتا ہوں یعنی اختلاط ِمرد و زن کے کچھ آداب ہیں،جو اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں۔ پردے کا لفظ نہ قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے اور نہ ہی حدیث میں، البتہ یہ ازواجِ مطہرات کے بارے میں ضرور استعمال ہوا ہے اور ان کے لیے اس کے بالکل الگ احکام ہیں جو سورہ احزاب میں بیان ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کے لیے جو صورت حال پیدا کر دی گئی تھی، اس میں اللہ تعالیٰ نے ان کو کچھ خصوصی احکام دیے۔ انھی احکام کو بالعموم لوگ دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن قرآن نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ ان احکام کا عام مسلمان عورتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عام مسلمان عورتوں کے لیے جو احکام دیے گئے ہیں، وہ سورہ نور میں بڑی تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ یہاں چار باتیں بیان کی گئی ہیں: پہلی بات، مردوں اور عورتوں، دونوں کو الگ الگ خطاب کر کے یہ کہی گئی ہے کہ اپنی نگاہوں پر پہرا بٹھاؤ۔ عام حالات میں تو ہم جب کوئی حکم دیتے ہیں تو بس مذکر کے صیغے استعمال کر دیتے ہیں، وہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہوتاہے، لیکن قرآن مجید نے وہاں اہتمام کیا اور یہ کہا کہ
‘قل للمومنین’،’ قل للمومنات’،
اے پیغمبر آپ مسلمان مردوں سے یہ کہہ دیں، اے پیغمبر، آپ مسلمان عورتوں سے یہ کہہ دیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو۔ یعنی ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے کوئی میلان پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ لباس کا تمھیں خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اعضا کو نمایاں کرنے والا نہ ہو۔ تیسری بات یہ کہی ہے کہ عورتوں کو اپنے سینے کو بھی اچھی طرح ڈھانپ کر رکھنا چاہیے۔ چوتھی اور آخری بات بھی عورتوں ہی سے متعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ عورتیں زیب و زینت کرتی ہیں، زیورات پہنتی ہیں، اگر وہ یہ پہنے ہوئے ہوں تو پھران کو چھپا کر رکھیں۔ صرف ہاتھ پاؤں اور چہرے کی زیبایش اس سے مستثنیٰ ہے۔ یہ بہت ہی قابل عمل اور بڑے ہی سادہ احکام ہیں۔ اگر آپ ان پر غورکریں تو انمیں ایک شرافت (decency) ہے،جو پیدا کرنا مقصود ہے۔ یہی بات ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیثوں میں بھی اسی کو بیان کیا ہے۔ اس سے زائد کوئی بات حدیث کے پورے ذخیرے میں نہیں ملتی۔
مجیب: Javed Ahmad Ghamidi
اشاعت اول: 2015-06-21