سوال
غامدی صاحب نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ کہا ہے کہ ایسی کوئی حدیث موجود ہی نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ ”جس گھر میں کتا ہو، اس میں خدا کے فرشتے داخل نہیں ہوتے”، حالانکہ مشکوٰۃ میں اس مضمون کی درج ذیل حدیث موجود ہے:
”حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر، کتا یا جنبی شخص ہو۔”
براہ مہربانی صحیح نقطہ نظر کی وضاحت کر دیں
جواب
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مضمون کی احادیث ہماری کتب احادیث میں پائی جاتی ہیں، جیسا کہ آپ نے بھی بیان کر دی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ کتوں کے بارے میں یہ بات تعمیم کے اسلوب میں نہیں مانی جا سکتی کہ جہاں کتے موجود ہوں، وہاں فرشتے نہیں آتے، کیونکہ قرآن مجید میں کتوں کے سدھائے جانے کا اور ان کے شکار کے جواز کا ذکر موجود ہے۔ ارشاد باری ہے:
يَسْئَلُوْنَكَ مَاذَآ اُحِلَّ لَهُمْ قُلْ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّيِّبٰتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِينَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰهُ فَکُلُوْا مِمَّا اَمْسَکْنَ عَلَيْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ. (المائده٥:٤)
”وہ تم سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال ٹھہرایا گیا ہے۔کہو ،تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال ٹھہرائی گئی ہیں۔ اور شکاری جانوروں میں سے جن کو تم نے سدھایا ہے، اس علم میں سے کچھ سکھا کر جو اللہ نے تمھیں سکھایا ہے تو تم ان کے اس شکار میں سے کھاؤ جو وہ تمھارے لیے روک رکھیں اور ان (شکاری جانوروں) پر اللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ بہت جلد حساب چکانے والا ہے۔”
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے شکاری جانوروں خواہ وہ شکاری کتے ہوں یا باز اور عقاب وغیرہ، ان کا ذکر مثبت انداز میں کیا ہے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ شکار کے مقصد سے کتے یا باز اور عقاب وغیرہ رکھنا، انھیں پالنا، انھیں سدھانا اور ان کے ذریعے سے شکار کرنا، خدا کے نزدیک نہ کوئی گناہ کا کام ہے اور نہ مکروہ کام، لہٰذاجن احادیث میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا موجود ہو، ان کا مطلب بہرحال ، ان آیات کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ یہ بات نہیں مانی جا سکتی کہ جہاں شکار کے وہ کتے موجود ہوں جنھیں رکھنا، پالنا، سدھانا اور ان کے ذریعے سے شکار کرنا، نہ کوئی گناہ کا کام ہے اور نہ کوئی مکروہ کام، بلکہ ہمیں ان کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ جب تم انھیں شکار کے لیے چھوڑو تو ان پر اللہ کا نام لے لیا کرو، وہاں اللہ کے فرشتے نہ آتے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کتے کی موجودگی میں فرشتے کے گھر میں داخل نہ ہونے کا معاملہ ہر عام و خاص کتے کے حوالے سے نہیں ہے۔ یعنی ان احادیث میں کتے کا لفظ تعمیم کے اسلوب میں نہیں بولا گیا کہ اس سے ہر قسم کا کتا مراد لیا جا سکے۔
اس مسئلے کو بخاری و مسلم کی درج ذیل احادیث واضح کرتی ہیں۔ ارشاد نبوی ہے:
”جو شخص مویشیوں یا کھیتی کی حفاظت کے علاوہ کتا پالتا ہے ، اس کے ثواب میں سے ہر روز ایک قیراط کم کر دیا جاتا ہے۔” (بخاری ، رقم ٣٣٢٤)
”جس نے مویشیوں کی حفاظت، شکار کی غرض یا کھیتی کی حفاظت کے سوا کتا رکھا، اس کے ثواب میں سے ہر روز ایک قیراط کم ہوتا ہے۔” (بخاری ، رقم٢٣٢٢)
” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری کتوں یا کھیتی اور مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتوں کے سوا دوسرے کتوں کو مار دینے کا حکم دیا۔” (مسلم، رقم١٥٧١)
اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی حقیقی ضرورت کے لیے کتا پالنا اور رکھنا ممنوع نہیں ہے، البتہ خواہ مخواہ کتے پالنے کے شوق سے کتا رکھنا، اسلام کے نزدیک ممنوع ہے۔ اسی طرح آوارہ کتوں کو گھروں میں آنے دینا بھی درست نہیں ہو گا۔
چنانچہ جس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ”فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جس میں تصویر، کتا یا جنبی آدمی ہو”، اس میں ہمارے نزدیک کتے سے مراد آوارہ کتا ہے یا پھر وہ کتا جو محض کتے پالنے کے شوق سے رکھا گیا ہو۔
مجیب: Muhammad Rafi Mufti
اشاعت اول: 2015-06-26