سوال
اس کی کیا وجہ ہے کہ اسلام کی بہت سادہ باتوں کو بھی بعض بڑے بڑے علما نہیں سمجھ سکے، حالانکہ ان کے عالم اور بڑے ہونے میں کوئی بحث نہیں۔ مثلاً،یہ بات بڑی سادہ اور واضح ہے کہ سورۂ احزاب کی کئی آیات کا تعلق محض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے ہے، لیکن اسے سب مسلمان خواتین کے لیے عام مانا گیا، ایسا کیوں ہوا؟ اور جو بات بہت واضح تھی، وہ مقبول کیوں نہیں ہوئی؟
جواب
اس میں کوئی شک نہیں کہ سورۂ احزاب کی بعض آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں ہی کے لیے احکام دیے گئے ہیں، جیسا کہ درج ذیل آیات میں ہم واضح طور پر دیکھ رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود کیا معاملہ اتنا سادہ ہے کہ کوئی دوسرا عالم ہماری راے سے الگ کوئی اور راے قائم کر ہی نہیں سکتا۔ آئیے، ہم ان آیات کا مطالعہ کرتے اور زیر بحث مسئلے پر غور کرتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
” اے نبی، اپنی بیویوں سے کہہ دو، اگر تم دنیا اور اس کی زینتوں کی طالب ہو تو پھر آؤ، میں تمھیں دے دلا کر خوب صورتی کے ساتھ رخصت کر دوںاور اگر تم اللہ، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کی طالب ہو تو اطمینان رکھو کہ اللہ نے تم میں سے خوبی کے ساتھ نباہ کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو،تم میں سے جو کوئی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہو گی تو اس کے لیے دوگنا عذاب ہو گا، اور یہ بات اللہ کے لیے آسان ہے۔ اور جو تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی فرماںبردار بنی رہیں گی اور نیک عمل کریں گی تو اسے ہم دُہرا اجر دیں گے۔ اور ہم نے ان کے لیے باعزت رزق تیار کر رکھا ہے۔
اے نبی کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، (چنانچہ) اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو تو لہجے میں نرمی اختیار نہ کرو کہ جس کے دل میں خرابی ہو ، وہ تمھارے بارے میں کسی طمع خام میں مبتلا ہو جائے اور صاف سیدھی بات کیا کرو۔ اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور پہلی جاہلیت کی طرح سج دھج نہ دکھاتی پھرو، اور نماز کا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ و رسول کی فرماں برداری کرو۔ اللہ تو یہی چاہتا ہے ، اِس گھرکی بیبیوکہ تم سے (وہ ) گندگی دور کرے (جو یہ منافق تم پر تھوپنا چاہتے ہیں) اور تمھیں پوری طرح پاک کر دے۔ اور تمھارے گھروں میں اللہ کی آیتوں اور اُس کی نازل کردہ حکمت کی جو تعلیم ہوتی ہے، (اپنے ملنے والوں سے) اُس کا چرچا کرو۔ بے شک ، اللہ بڑا ہی دقیقہ شناس ہے، وہ پوری طرح خبر رکھنے والا ہے۔” (33: 28۔34)
اسی سورہ کے ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
”ایمان والو، نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو، الاّ یہ کہ تمھیں کسی وقت کھانے کے لیے آنے کی اجازت دی جائے ۔ اِس صورت میں بھی اُس کے پکنے کا انتظار کرتے ہوئے نہ بیٹھو ۔ ہاں ، جب بلایا جائے تو آؤ۔ پھر جب کھا لو تو منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہو ۔ یہ باتیں نبی کے لیے باعث اذیت تھیں، مگر وہ تمھارا لحاظ کرتے رہے اور اللہ حق بتانے میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔ اور نبی کی بیویوں سے تمھیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ طریقہ تمھارے دلوں کے لیے بھی زیادہ پاکیزہ ہے اور اُن کے دلوں کے لیے بھی۔ اور تمھارے لیے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف دو اور نہ یہ جائز ہے کہ اُن کے بعد اُن کی بیویوں سے نکاح کرو۔ یہ اللہ کے نزدیک بڑی سنگین بات ہے ۔ تم کوئی بات ظاہر کرو یا چھپاؤ ، اللہ ہر چیز سے واقف ہے ۔ اِن (بیبیوں) پر ، البتہ اِس معاملے میں کوئی گناہ نہیں کہ اپنے باپوں اور اپنے بیٹوں اور اپنے بھائیوں اور اپنے بھتیجوں اور اپنے بھانجوں اور اپنے میل جول کی عورتوں اور اپنے غلاموں کے سامنے ہوں۔ اور اللہ سے ڈرتی رہو ، بیبیو، بے شک، اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے۔ ” (٣٣: ٥٣- ٥٥)
ان سب آیات میں صریح طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں ہی سے خطاب کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف کر ہی نہیں سکتا۔ اختلاف اس جگہ ہوتا ہے کہ ان آیات سے معلوم ہونے والے احکام اور ہدایات کا دائرۂ اطلاق کیا صرف ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک ہی محدود ہے؟
ذیل میں پہلے ہم استاذ محترم جاوید احمد صاحب غامدی کا نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد انھی آیات میں بیان کردہ بعض احکام کے اس امتداد کو بیان کریں گے جو بعض دوسرے علما کے نقطۂ نظر کے مطابق لازم ہے۔ زیر بحث آیات کے بارے میں غامدی صاحب کا نقطۂ نظر حسب ذیل ہے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی رعایت سے اور خاص آپ کی ازواج مطہرات کے لیے بھی اس سلسلہ کی بعض ہدایات اسی سورہ ئ احزاب میں بیان ہوئی ہیں۔ عام مسلمان مردوں اور عورتوں سے ان ہدایات کا اگرچہ کوئی تعلق نہیں ہے ، لیکن بعض اہل علم چونکہ اِن کی تعمیم کرتے ہیں، اِس لیے ضروری ہے کہ اِن کی صحیح نوعیت بھی یہاں واضح کر دی جائے ۔
سورہ پر تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ کے وہی اشرار اور منافقین جن کا ذکر اوپر ہوا ہے ، جب رات دن اِس تگ و دو میں رہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے متعلق کوئی اسکینڈل پیدا کریں تاکہ عام مسلمان بھی آپ سے برگشتہ اور بدگمان ہوں اور اسلام اور مسلمانوں کی اخلاقی ساکھ بھی بالکل برباد ہو کر رہ جائے تو اللہ تعالیٰ نے اِس فتنے کا سدباب اِس طرح کیا کہ پہلے ازواج مطہرات کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو دنیا کے عیش اور اُس کی زینتوں کی طلب میں حضور سے الگ ہو جائیں اور چاہیں تو اللہ و رسول اور قیامت کے فوزو فلاح کی طلب گار بن کر پورے شعور کے ساتھ ایک مرتبہ پھر یہ فیصلہ کر لیں کہ اُنھیں اب ہمیشہ کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہنا ہے ۔ اِس کے بعد فرمایا کہ وہ اگر حضور کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتی ہیں تو اُنھیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آپ کی رفاقت سے جو مرتبہ اُنھیں حاصل ہوا ہے ، اُس کے لحاظ سے اُن کی ذمہ داری بھی بہت بڑی ہے ۔ وہ پھر عام عورتیں نہیں ہیں ۔ اُن کی حیثیت مسلمانوں کی ماؤں کی ہے ۔ اِس لیے وہ اگر صدق دل سے اللہ و رسول کی فرماں برداری اور عمل صالح کریں گی تو جس طرح اُن کی جزا دہری ہے ، اِسی طرح اگر اُن سے کوئی جرم صادر ہوا تو اُس کی سزا بھی دوسروں کی نسبت سے دہری ہو گی۔ اُن کے باطن کی پاکیزگی میں شبہ نہیں ، لیکن اللہ تعالیٰ اُنھیں لوگوں کی نگاہ میں بھی ہر طرح کی اخلاقی نجاست سے بالکل پاک دیکھنا چاہتا ہے ۔ یہ اُن کے مقام و مرتبہ کا تقاضا ہے اور اِس کے لیے یہ چند باتیں اپنے شب و روز میں اُنھیں لازماً ملحوظ رکھنی چاہییں :
اول یہ کہ وہ اگر خدا سے ڈرنے والی ہیں تو ہر آنے والے سے بات کرنے میں نرمی اور تواضع اختیار نہ کیا کریں ۔ عام حالات میں تو گفتگو کا پسندیدہ طریقہ یہی ہے کہ آدمی تواضع اختیار کرے ، لیکن جو حالات اُنھیں درپیش ہیں، اُن میں اشرار و منافقین مروت اور شرافت کے لہجے سے دلیر ہوتے اور غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اِس سے اُنھیں یہ توقع پیدا ہو جاتی ہے کہ جو وسوسہ اندازی وہ اُن کے دلوں میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، اُس میں انھیں کامیابی حاصل ہو جائے گی ۔ اِس لیے ایسے لوگوں سے اگر بات کرنے کی نوبت آئے تو بالکل صاف اور سادہ انداز میں اور اِس طرح بات کرنی چاہیے کہ اگر وہ اپنے دل میں کوئی برا ارادہ لے کر آئے ہیں تو اُنھیں اچھی طرح اندازہ ہو جائے کہ یہاں اُن کے لیے کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے : يٰنِسَآءَ النَّبِیِّ، لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ، اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا.(33: 32)
”نبی کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، (اِس لیے) اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو تو لہجے میں نرمی اختیار نہ کرو کہ جس کے دل میں خرابی ہے ، وہ کسی طمع خام میں مبتلا ہو جائے اور (اِس طرح کے لوگوں سے) صاف سیدھی بات کیا کرو۔”
دوم یہ کہ اپنے مقام و مرتبہ کی حفاظت کے لیے وہ گھروں میں ٹک کر رہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جس ذمہ داری پر اُنھیں فائز کیا ہے ، اُن کے سب انداز اور رویے بھی اُس کے مطابق ہونے چاہییں ۔ لہٰذا کسی ضرورت سے باہر نکلنا ناگزیر ہو تو اُس میں بھی زمانۂ جاہلیت کی بیگمات کے طریقے پر اپنی زیب و زینت کی نمایش کرتے ہوئے باہر نکلنا جائز نہیں ہے ۔ اُن کی حیثیت اور ذمہ داری ، دونوں کا تقاضا ہے کہ اپنے گھروں میں رہ کر شب و روز نماز اور زکوٰۃ کا اہتمام رکھیں اور ہر معاملے میں پوری وفاداری کے ساتھ اللہ اور رسول کی اطاعت میں سرگرم ہوں ۔ تاہم کسی مجبوری سے باہر نکلنا ہی پڑے تو اسلامی تہذیب کا بہترین نمونہ بن کر نکلیں اور کسی منافق کے لیے انگلی رکھنے کا کوئی موقع نہ پیدا ہونے دیں :
وَقَرْنَ فِیْ بُيوْتِکُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهلِيَة الْاُوْلٰی وَاَقِمْنَ الصَّلٰوة وَاٰتِينَ الزَّکٰوة وَاَطِعْنَ الله وَرَسُوْلَه. اِنَّمَا يرِيدُ الله لِيذْهبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهلَ الْبَيتِ، وَيطَهّرَکُمْ تَطْهيرًا. (33: 33)
”اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور پہلی جاہلیت کی طرح سج دھج نہ دکھاتی پھرو، اور نماز کا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ و رسول کی فرماں برداری کرو ۔ اللہ تو یہی چاہتا ہے ، اِس گھرکی بیبیوکہ تم سے (وہ ) گندگی دور کرے (جو یہ منافق تم پر تھوپنا چاہتے ہیں) اور تمھیں پوری طرح پاک کر دے۔”
سوم یہ کہ اللہ کی آیات اور ایمان و اخلاق کی جو تعلیم اُن کے گھروں میں دی جا رہی ہے ، دوسری باتوں کے بجاے وہ اپنے ملنے والوں سے اُس کا چرچا کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں جس کام کے لیے منتخب فرمایا ہے ، وہ یہی ہے ۔ اُن کا مقصد زندگی اب دنیا اور اُس کا عیش و عشرت نہیں، بلکہ اِسی علم و حکمت کا فروغ ہونا چاہیے :
وَاذْکُرْنَ مَا يُتْلٰی فِیْ بُيُوْتِکُنَّ مِنْ اٰيٰتِ الله وَالْحِکْمَةِ. اِنَّ الله کَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرًا.(33: 34)
”اور تمھارے گھروں میں اللہ کی آیتوں اور اُس کی (نازل کردہ) حکمت کی جو تعلیم ہوتی ہے، (اپنے ملنے والوں سے) اُس کا چرچا کرو۔ بے شک ، اللہ بڑا ہی دقیقہ شناس ہے، وہ پوری طرح خبر رکھنے والا ہے۔ ”
اِس کے بعد بھی معلوم ہوتا ہے کہ اشرار اپنی شرارتوں سے باز نہیں آئے ۔ چنانچہ اِسی سورہ میں آگے اللہ تعالیٰ نے نہایت سختی کے ساتھ چند مزید ہدایات اِس سلسلہ میں دی ہیں ۔
فرمایا ہے کہ اب کوئی مسلمان بن بلائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں داخل نہ ہو سکے گا۔ لوگوں کو کھانے کی دعوت بھی دی جائے گی تو وہ وقت کے وقت آئیں گے اور کھانا کھانے کے فوراً بعد منتشر ہو جائیں گے ، باتوں میں لگے ہوئے وہاں بیٹھے نہ رہیں گے ۔
آپ کی ازواج مطہرات لوگوں سے پردے میں ہوں گی اور قریبی اعزہ اور میل جول کی عورتوں کے سوا کوئی اُن کے سامنے نہ آئے گا ۔ جس کو کوئی چیز لینا ہو گی ، وہ بھی پردے کے پیچھے ہی سے لے گا۔
پیغمبر کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں ۔ جو منافقین ان سے نکاح کے ارمان اپنے دلوں میں رکھتے ہیں ، اُن پر واضح ہو جانا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی ازواج مطہرات سے کسی کا نکاح نہیں ہو سکتا ۔ اُن کی یہ حرمت ہمیشہ کے لیے قائم کر دی گئی ہے ۔ لہٰذا ہر صاحب ایمان کے دل میں احترام و عقیدت کا وہی جذبہ ان کے لیے ہونا چاہیے جو وہ اپنی ماں کے لیے اپنے دل میں رکھتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لوگوں کی یہ باتیں باعث اذیت رہی ہیں۔ اب وہ متنبہ ہو جائیں کہ اللہ کے رسول کو اذیت پہنچانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ یہ بڑی ہی سنگین بات ہے ۔ یہاں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنی کسی نازیبا سے نازیبا حرکت کے لیے بھی کوئی عذر تراش لے ، لیکن وہ پروردگار جو دلوں کے بھید تک سے واقف ہے ، یہ باتیں اس کے حضور میں کسی کے کام نہ آ سکیں گی :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا، لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّا ۤاَنْ يُّؤْذَنَ لَکُمْ اِلٰی طَعَامٍ غَيْرَ نٰظِرِيْنَ اِنٰهُ، وَلٰکِنْ اِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا، وَلَا مُسْتَاْنِسِيْنَ لِحَدِيْثٍ. اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ يُؤْذِی النَّبِیَّ فَيَسْتَحْیٖ مِنْکُمْ، وَالله لَا يَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ. وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ. ذٰلِکُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ. وَمَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ الله وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوْۤا اَزْوَاجَه، مِنْ بَعْدِهٖۤ اَبَدًا. اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ عِنْدَ الله عَظِيْمًا. اِنْ تُبْدُوْا شَيْئًا اَوْ تُخْفُوْهُ فَاِنَّ اللهَ کَانَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِيْمًا. لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِیْۤ اٰبَآئِهِنَّ وَلَآ اَبْنَآئِهِنَّ وَلَآ اِخْوَانِهِنَّ وَلَآ اَبْنَآءِ اِخْوَانِهِنَّ وَلَآ اَبْنَآءِ اَخَوٰتِهِنَّ وَلَا نِسَآئِهِنَّ وَلَا مَا مَلَکَتْ اَيْمَانُهُنَّ وَاتَّقِيْنَ الله، اِنَّ الله کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَهِيْدًا. (33: 53۔55)
”ایمان والو، نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو، الاّ یہ کہ تمھیں کسی وقت کھانے کے لیے آنے کی اجازت دی جائے ۔ اِس صورت میں بھی اُس کے پکنے کا انتظار کرتے ہوئے نہ بیٹھو ۔ ہاں ، جب بلایا جائے تو آؤ۔ پھر جب کھا لو تو منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہو ۔ یہ باتیں نبی کے لیے باعث اذیت تھیں، مگر وہ تمھارا لحاظ کرتے رہے اور اللہ حق بتانے میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔ اور نبی کی بیویوں سے تمھیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ طریقہ تمھارے دلوں کے لیے بھی زیادہ پاکیزہ ہے اور اُن کے دلوں کے لیے بھی۔ اور تمھارے لیے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف دو اور نہ یہ جائز ہے کہ اُن کے بعد اُن کی بیویوں سے نکاح کرو۔ یہ اللہ کے نزدیک بڑی سنگین بات ہے ۔ تم کوئی بات ظاہر کرو یا چھپاؤ ، اللہ ہر چیز سے واقف ہے ۔ اِن (بیبیوں) پر ، البتہ اِس معاملے میں کوئی گناہ نہیں کہ اپنے باپوں اور اپنے بیٹوں اور اپنے بھائیوں اور اپنے بھتیجوں اور اپنے بھانجوں اور اپنے میل جول کی عورتوں اور اپنے غلاموں کے سامنے ہوں۔ اور اللہ سے ڈرتی رہو ، بیبیو۔ بے شک، اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے۔ ”(میزان ، ص 471۔474)
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ زیر بحث آیات میں موجود وہ کون سے احکام ہیں جنھیں عام مسلمانوں کے لیے بھی ضروری یا کم از کم بہتر قرار دیا گیا ہے اور ان احکام کی اس تعمیم کی وجہ کیا ہے۔
مثلاً، درج ذیل آیت سے یہ اصول نکالا گیا کہ عورتوں کو بھی سب اجنبیوں سے سپاٹ لہجے میں بات کرنی چاہیے،حالانکہ یہ حکم ایک خاص صورت حال کی وجہ سے صرف ازواج مطہرات کو دیا گیا تھا:
”نبی کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، (اِس لیے) اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو تو لہجے میں نرمی اختیار نہ کرو کہ جس کے دل میں خرابی ہے ، وہ کسی طمع خام میں مبتلا ہو جائے اور (اِس طرح کے لوگوں سے) صاف سیدھی بات کیا کرو۔” (33: 32)
اسی طرح درج ذیل آیت سے یہ اخذ کیا گیا ہے کہ عورت کا دائرۂ کار اس کا گھر ہے اور اسے لازماً اپنے گھروں تک ہی محدود رہنا چاہیے:
”اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور پہلی جاہلیت کی طرح سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔” (33: 33)
اور درج ذیل آیت سے یہ اخذ کیا گیا کہ ہر اجنبی کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ کسی عورت سے بات کرے یا کوئی چیزمانگے تو درمیان میں پردے کی اوٹ ہونی چاہیے:
”اور نبی کی بیویوں سے تمھیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ طریقہ تمھارے دلوں کے لیے بھی زیادہ پاکیزہ ہے اور اُن کے دلوں کے لیے بھی۔” (33: 53)
ان آیات کی تعمیم کرنے والوں کے ہاں تعمیم کی وجہ یہ رہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات عام مسلمان عورتوں کے لیے نمونہ ہیں، لہٰذا جو حکم انھیں دیا جا رہا ہے ،وہ ان کے واسطے سے عام مسلمان عورتوں تک ممتد ہوتا ہے۔ یہ بات کوئی ایسی غلط نہیں، کیونکہ وہ امت کی مائیں ہیں اور ماں اگر اپنی بیٹیوں کے لیے نمونہ نہیں ہو گی تو اور کون ہو گا۔ چنانچہ ان کے نقطۂ نظر کو بالکل بے بنیاد نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ کوئی محقق یہ ثابت کر دے کہ سورہ کا موضوع، اس میں زیر بحث مسائل اور آیات کا سیاق و سباق اس بات کو لازم کرتے ہیں کہ ان باتوں کو ازواج مطہرات ہی کے ساتھ خاص مانا جائے۔ استاذ محترم غامدی صاحب نے انھی بنیادوں پر ان آیات کے بارے میں عام راے سے مختلف راے قائم کی ہے۔
اس طریقے سے جب غور و فکر کی بنیادیں ہی مختلف ہو جاتی ہیں یا دوسرے لفظوں میں غور و فکر کے اصول مختلف ہو جاتے ہیں تو پھر ان باتوں میں بھی اختلاف ہو جاتا ہے جن میں عام آدمی کے خیال میں بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اختلاف دراصل، بڑے علما کی عظمت اور ان کے علم کی گہرائی ہی کو ظاہر کرتا ہے۔ اور ہمارا معاملہ یہ ہے کہ جب ہم ایک بڑے پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہو کر کسی دوسرے بڑے پہاڑ کو دور سے دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں چھوٹا نظر آتا ہے، حالانکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ بڑا ہو۔
مجیب: Muhammad Rafi Mufti
اشاعت اول: 2015-07-09