سوال
عیسیٰ علیہ السلام کی پیدایش کا کیا معاملہ ہے ، کیا وہ واقعۃً بن باپ کے پیدا ہوئے تھے؟
جواب
عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اشعیا نبی (٧٦٩-٦٩٣ق م) نے درج ذیل پیش گوئی کی تھی:
”دیکھ کنواری حاملہ ہو گی اور اس سے بیٹا ہو گااور وہ اس کا نام عمانوئیل رکھے گی۔” (اشعیا ٧: ١٤)
اسی پیش گوئی کا ذکر انجیل میں بھی ہوا ہے:
”جو کچھ اس (مریم) کے اندر ہے، وہ روح القدس سے ہے اور اس سے بیٹا ہو گا … یہ سب کچھ ہوا تاکہ جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا پورا ہوکہ دیکھو کنواری حاملہ ہو گی اور اس سے بیٹا ہو گا۔ اور اس کا نام عمانوئیل رکھیں گے۔” (متی ١: ٢٠-٢٣)
ان پیش گوئیوں کے بعد عیسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے، اپنی ذمہ داریاں ادا کیں اور پھر چلے گئے۔ پھر جب ان کے بارے میں طرح طرح کے عجیب تصورات پیدا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرنے اور صحیح بات کو واضح کرنے کے لیے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدایش کے معاملے کو قرآن مجید میں باقاعدہ بیان کیا۔ ارشاد باری ہے:
وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْيَمَ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَکَانًا شَرْقِيًّا. فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهمْ حِجَابًا فَاَرْسَلْنَآ اِلَيْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لهَا بَشَرًا سَوِيًّا. قَالَتْ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِيًّا. قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَکِيًّا. قَالَتْ اَنّٰی يَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّلَمْ يَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّلَمْ اكُ بَغِيًّا. قَالَ کَذٰلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَیَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَه،ۤ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا. فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِه مَکَانًا قَصِيًّا. فَاَجَآءَ هَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَِة قَالَتْ يٰلَيْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَکُنْتُ نَسْيًا مَّنْسِيًّا. فَنَادٰهَا مِنْ تَحْتِهَآ اَلَّا تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا. وَهُزِّیْۤ اِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنيًّا. فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّیْ عَيْنًا فَاِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا فَقُوْلِیْۤ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْيَوْمَ اِنْسِيًّا. فَاَتَتْ بِه قَوْمَهَا تَحْمِلُه، قَالُوْا يٰمَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا. يٰۤاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّمَا کَانَتْ اُمُّكِ بَغِيًّا. فَاَشَارَتْ اِلَيهِ قَالُوْا کَيْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِيًّا. قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِيًّا. وَّجَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَيْنَ مَا کُنْتُ وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّکٰوةِ مَا دُمْتُ حَيًّا. وَّبَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَلَمْ يَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِيًّا. وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَيَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا. ذٰلِكَ عِيْسَی ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِيْهِ يَمْتَرُوْنَ. مَا کَانَ لِلّٰهِ اَنْ يَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ سُبْحٰنَه، اِذَا قَضٰۤی اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَه، کُنْ فَيَکُوْنُ. وَاِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْهُ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ.(مريم١٩:١٦-٣٦)
”اور کتاب میں مریم کی سرگزشت کو یاد کرو،جبکہ وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر پورب کی جگہ میں جا بیٹھی۔ پس اس نے اپنے آپ کو اُن سے پردے میں کر لیاتو ہم نے اس کے پاس اپنا فرشتہ بھیجاجو اُس کے سامنے ایک کامل بشر کی صورت میں نمودار ہوا۔ وہ بولی کہ اگر تم کوئی خداترس آدمی ہو تو میں تم سے خداے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں۔ اُس نے کہا: میں تمھارے رب ہی کا فرستادہ ہوں تاکہ تمھیں ایک پاکیزہ فرزند عطا کروں۔ وہ بولی: میرے لڑکا کیسے ہو گا، نہ مجھے کسی مرد نے ہاتھ لگایا اور نہ میں کوئی چھنال ہوں۔ اُس نے کہا: یوں ہی ہوگا۔ تیرے رب کا ارشاد ہے کہ یہ میرے لیے آسان ہے اور ہم یہ اِس لیے کریں گے کہ (وہ ہمارا رسول ہو اور) ہم اُس کو لوگوں کے لیے اپنی ایک نشانی اور اپنی جانب سے رحمت بنائیں۔ اور یہ ایک طے شدہ امر ہے۔پس اُس نے اُس کا حمل اٹھا لیااور وہ اُس کو لے کر ایک دور کے مقام پر چلی گئی۔ بالآخر یہ ہوا کہ درد زہ اُس کو کھجور کے تنے کے پاس لے گیا۔ اس وقت اُس نے کہا: اے کاش، میں اِس سے پہلے ہی مر کھپ کے بھولی بسری چیز ہو چکی ہوتی۔ پس (کھجور کے) نیچے سے فرشتے نے اُس کو آواز دی کہ مغموم نہ ہو، تمھارے پائیں سے تمھارے پروردگار نے ایک چشمہ جاری کر رکھا ہے اور تم کھجور کے تنا کو اپنی طرف ہلاؤ، تم پر تر و تازہ خرمے جھڑیں گے۔ پس کھاؤ اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ اور اگر کوئی آدمی معترض ہو تو اس سے اشارے سے کہہ دیجیوکہ میں نے خداے رحمن کے لیے روزے کی منت مان رکھی ہے تو آج میں کسی انسان سے کوئی بات نہیں کر سکتی۔ پس وہ اُس کو گود میں اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئی۔ لوگوں نے کہا: مریم، تم نے تو یہ نہایت عجیب حرکت کر ڈالی۔ اے ہارون کی بہن، نہ تمھارا باپ ہی کوئی برا آدمی تھا اور نہ تمھاری ماں ہی کوئی چھنال تھی۔اُس نے اُس کی طرف اشارہ کیا۔ لوگوں نے کہا :ہم اِس سے کس طرح بات کریں جو ابھی گود میں بچہ ہے؟ بچے نے جواب دیا : میں اللہ کا بندہ ہوں، اُس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے نبی بنایا ہے اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اُس نے سرچشمہ خیر و برکت ٹھہرایا ہے اور جب تک میں جیوں اُس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی ہدایت فرمائی ہے اور مجھے ماں کا فرماں بردار بنایا ہے، مجھے سرکش اور بد بخت نہیں بنایا ہے۔ مجھ پر سلامتی ہے جس دن میں پیدا ہوا، جس دن مروں گا اور جس دن زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا۔ یہ ہیں عیسیٰ ابن مریم۔ یہ اصل حقیقت بیان ہوئی ہے جس میں یہ لوگ جھگڑ رہے ہیں۔ خدا کے شایاں نہیں کہ وہ کوئی اولاد بنائے۔ وہ پاک ہے۔ جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو بس اُس کو فرماتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔اور بے شک اللہ ہی میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی تو اُسی کی بندگی کرو۔ یہی سیدھی راہ ہے۔”
پہلی بات تو یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدایش سے پہلے اشعیا نبی کی یہ پیش گوئی موجود تھی کہ ایک کنواری عورت حاملہ ہو گی اور وہ ایک بیٹا جنے گی۔ عام اصول کے مطابق ایسا ممکن ہی نہیں کہ کسی کنواری عورت سے اولاد ہو۔ اب دو صورتیں ہی ممکن تھیں:
ایک یہ کہ بائیبل کی یہ بات کہ ”کنواری حاملہ ہو گی اور وہ بیٹا جنے گی” کوئی حقیقی بات ہی نہیں تھی۔ چنانچہ اشعیا نبی سے منسوب کی ہوئی یہ بات ایک جھوٹ ہے۔
دوسری یہ کہ یہ پیش گوئی بالکل سچ تھی اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے جاری کردہ عام قانون کو توڑ دیا تھا، جیسا کہ وہ معجزات کے ضمن میں کیا ہی کرتا ہے۔
اگر پہلی بات کو سچ سمجھا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن مجید نازل ہوا، تب اس نے لوگوں کو ان کے اس باطل خیال سے نکالنے کے لیے وہی اشعیا نبی کے صحیفے اور انجیل والی بات کیوں دوہرا دی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ قرآن مجید پوری شدت کے ساتھ پرانے صحیفوں کی اس پیش گوئی کا انکار کرتااور یہ بتاتا کہ عیسیٰ کنواری مریم سے نہیں، بلکہ فلاں شخص کی صلب سے پیدا ہوئے ہیں، لیکن عجیب بات ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ ایسی کوئی بات نہیں کی، بلکہ اس کے برعکس:
١۔ یہ بتایا کہ ہم نے مریم کے پاس اپنا فرشتہ بھیجاجو اُس کے سامنے ایک کامل بشر کی صورت میں نمودار ہوا۔
٢۔ اس نے کہا :میں تمھارے رب کا فرستادہ ہوں تاکہ تمھیں ایک پاکیزہ فرزند عطا کروں۔
(یعنی اس فرشتے نے ایسے الفاظ میں بیٹے کی یہ پیش گوئی کی کہ کنواری مریم کو پتا چل گیا کہ یہ فرزند میرے کنوار پن کی اسی حالت میں ہونا ہے۔چنانچہ اس نے پریشانی میں یہ کہا: )
٣۔ میرے لڑکا کیسے ہو گا، نہ مجھے کسی مرد نے ہاتھ لگایا اور نہ میں کوئی چھنال ہوں۔
(کیونکہ تیسری کوئی صورت ان کے ذہن میں نہیں آتی تھی۔)
٤۔ فرشتے نے کہا :یوں ہی ہوگا۔
(یعنی تیری اسی حالت میں ہو گا ، جبکہ نہ تجھے کسی مرد نے ہاتھ لگایا ہے اور نہ تو کوئی چھنال ہے۔ تجھے اپنی اس حالت میں جو کام ناممکن نظر آرہا ہے۔)
٥۔ تیرے رب کا ارشاد ہے کہ یہ کام میرے لیے آسان ہے۔
٦۔ اور ہم یہ اس لیے کریں گے تا کہ (وہ ہمارا رسول ہو اور) ہم اس کو (اس معجزانہ طریقے سے پیدا کرکے) لوگوں کے لیے اپنی ایک (حیرت انگیز) نشانی اور اپنی جانب سے رحمت بنائیں۔ اور یہ ایک طے شدہ امر ہے۔
٧۔ پس اس نے اس کا حمل اٹھا لیااور وہ اس کو لے کر ایک دور کے مقام پر چلی گئی ۔ بالآخر یہ ہوا کہ درد زہ اس کو کھجور کے تنے کے پاس لے گیا۔ اس وقت اس نے کہا:
٨۔ اے کاش، میں اس سے پہلے ہی مر کھپ کے بھولی بسری چیز ہو چکی ہوتی۔
(تا کہ میں لوگوں کی طرف سے رسوائی اور ان کے اعتراضات کی اس بڑی آزمایش میں ڈالی ہی نہ جاتی جو کہ مجھے صاف دکھائی دے رہی ہے، خدا نے اس صورت حال میں اس سے کہا:)
٩۔ اور اگر کوئی آدمی معترض ہو تو اس سے اشارے سے کہہ دیجیوکہ میں نے خداے رحمن کے لیے روزے کی منت مان رکھی ہے تو آج میں کسی انسان سے کوئی بات نہیں کر سکتی۔
١٠۔ پس وہ اس کو گود میں اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئی۔ لوگوں نے کہا: مریم، تم نے تو یہ نہایت عجیب حرکت کر ڈالی۔ اے ہارون کی بہن، نہ تمھارا باپ ہی کوئی برا آدمی تھا اور نہ تمھاری ماں ہی کوئی چھنال تھی۔
(اگر عیسیٰ علیہ السلام عام طریقے سے، یعنی کسی باپ کی صلب ہی سے پیدا ہوئے ہوتے تو اس موقع پر اسے چھپایا کیوں جاتا، سیدھی طرح سے یہ بات بتائی جاتی کہ ہاں، نہ میرا باپ ہی کوئی برا آدمی تھا، نہ میری ماں ہی کوئی چھنال عورت تھی اور نہ میں کوئی بری اور چھنال عورت ہوں۔ مریم نے یہ سب کچھ نہیں کہا اور نہ اس طرح کی کوئی اور بات کی ، بلکہ ایک عجیب کام کیا کہ:)
١١۔ اس (مریم) نے اس (بچے) کی طرف اشارہ کیا۔
(یعنی مریم نے اس بچے کی طرف اشارہ کر دیا کہ تم اپنے سوالوں اور اعتراضات کے جواب اس آنے والے بچے ہی سے پوچھ لو۔)١٢۔ لوگوں نے کہا :ہم اس سے کس طرح بات کریں جو ابھی گود میں بچہ ہے ؟
(یعنی اس کے لیے تو ہماری بات کو سمجھنا اور اس کا جواب دینا ممکن ہی نہیں تم کیسی عجیب بات کہہ رہی ہو۔ حضرت مریم کے لیے یہ صورت حال جب اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی کہ ایک طرف لوگوں کے طعنوں کی بوچھاڑ تھی، ان کے سوالات بہ ظاہر بالکل صحیح اور بامعنی محسوس ہوتے تھے ، دوسری طرف کسی کے لیے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ مریم کے حق میں کوئی بات کہہ سکے اور خود ان کے لیے بھی اپنے حق میں کوئی استدلال کرنا یا قسم کھا کر ہی اپنی صفائی دینا ممکن نہ تھا، کیونکہ خدا نے انھیں اس موقع پر روزے کا حکم دے کر چپ رہنے کو کہہ دیا تھا تو اس صورت حال میں)
١٣۔ بچے نے جواب دیا: میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے نبی بنایا ہے اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اس نے سرچشمہ خیر و برکت ٹھہرایا ہے، اور جب تک میں جیوں اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی ہدایت فرمائی ہے اور مجھے ماں کا فرماں بردار بنایا ہے، مجھے سرکش اور بد بخت نہیں بنایا ہے۔ مجھ پر سلامتی ہے جس دن میں پیدا ہوا، جس دن مروں گا اور جس دن زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا۔
(اول تو اس نئے پیدا ہونے والے بچے کا بولنا کتنی نا ممکن بات تھی، پھر اس نے جو یہ باتیں کیں کہ:
”میں عام بندہ نہیں،میں تو نبی ہوں اور نبی بھی صاحب کتاب ہوں، اور میرا وجود جہاں کہیں ہو گا، سرچشمہ خیر و برکت ہو گا، میں جب تک اس دنیا میں زندہ رہوں، مجھے اللہ نے نماز پڑھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی ہدایت فرمائی ہے، اور اس نے مجھے اپنی ماں کا فرماں بردار بنایا ہے، مجھے کوئی سرکش اور بد بخت انسان نہیں بنایا اور خدا کی طرف سے مجھ پر سلامتی تھی اس دن بھی، جس دن میں پیدا ہوا، اور اس دن بھی سلامتی ہو گی، جس دن مروں گا اور اس دن بھی مجھ پر سلامتی ہو گی، جس دن میں زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا۔ ”
تو پھر (نعوذ باللہ) اس کو ولد الزنا سمجھنا ممکن نہ تھا۔ اب اس کے بارے میں ایک ہی امکان باقی رہ گیا تھا اور وہ یہ کہ اشعیا نبی کی معروف پیش گوئی پوری ہو چکی ہے، وہ کنواری جسے خدا کی قدرت سے حاملہ ہونا تھا، وہ اس بچے کی یہ ماں ہی ہے اور اس نے جس بیٹے کو جننا تھا ،وہ یہی بچہ ہے جو ہم سے یہ معجزانہ کلام کر رہا ہے۔)
١٤۔ یہ ہیں عیسیٰ ابن مریم۔ یہ اصل حقیقت بیان ہوئی ہے، جس میں یہ لوگ جھگڑ رہے ہیں۔ خدا کے شایاں نہیں کہ وہ کوئی اولاد بنائے۔ وہ پاک ہے۔ جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو بس اس کو فرماتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔اور بے شک اللہ ہی میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی تو اسی کی بندگی کرو۔ یہی سیدھی راہ ہے۔
(نزول قرآن کے وقت عیسائیوں کے ہاں یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ عیسیٰ ابن مریم خدا کا بیٹا ہے۔ چنانچہ ان آیات کے آخر پر ان کے اس عقیدے کی تردید کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ مختلف ضرور ہے اور وہ یہ ہے جو ہم نے بیان کر دیا ہے، وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں۔ خدا کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے، وہ اس سے پاک ہے، وہ ذات تو وہ ہے جو حرف کن سے جو چاہتی ہے پیدا کر لیتی ہے، اسے نہ کوئی زوال ہے اور نہ کوئی احتیاج ہے جس کی وجہ سے اسے اولاد کی ضرورت ہو اور وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔)
نیز عیسیٰ علیہ السلام ہی کے بارے میں فرمایا ہے:
اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰی عِنْدَ اللّٰهِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَه، مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَه، کُنْ فَيَکُوْنُ. اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلاَ تَکُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِيْنَ.(آل عمران٣:٥٩-٦٠)
”بے شک، عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے، اس کو مٹی سے بنایا پھر اس کو امر کیا کہ توہو جا تو وہ ہو گیا۔ یہی بات تمھارے رب کی طرف سے حق ہے تو تم شک کرنے والوں میں سے نہ بنو۔”
یہ آیت بھی ہمیں واضح طور پر یہ بتا رہی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدایش کا معاملہ آدم علیہ السلام کی پیدایش کی مثل ہے اور آپ اسی طرح بغیر باپ کے مریم کے پیٹ میں حرف کن کے ساتھ پیدا کیے گئے تھے، جیسے آدم علیہ السلام بغیر ماں باپ کے مٹی سے حرف کن سے پیدا کیے گئے تھے۔ پھر اس کے بعد اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نصیحت بھی کر دی ہے کہ یہی بات حق ہے ، لہٰذا اے مخاطب، تم شک کرنے والوں میں سے نہ بنو۔
مجیب: Muhammad Rafi Mufti
اشاعت اول: 2015-06-30