سوال
میری اہلیہ میری طرف سے ملازمت کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے مجھے چھوڑ کر اپنے والدین کے پاس چلی گئی ہے۔ وہ اپنے ساتھ میری انتہائی بیمار بچی کو بھی لے گئی ہے، حالانکہ میرے سسرال میں نہ صحیح طرح سے اس بچی کا علاج ممکن ہے اور نہ وہ لوگ اس کے علاج کا خرچ برداشت ہی کر سکتے ہیں۔ اب وہ مجھے اپنی بچی سے ملنے بھی نہیں دے رہے، بلکہ مزید یہ کہ میری اہلیہ نے عدالت سے یہ درخواست کی ہے کہ بچی کو اسی کے پاس رہنے دیا جائے۔ جبکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر میری بیوی میرے پاس نہیں بھی آنا چاہتی تو میری بیٹی میرے پاس ہی رہے تاکہ میں اس کا صحیح علاج کرا سکوں۔ چنانچہ میں آپ سے درج ذیل سوالات پوچھنا چاہتا ہوں:
١۔ کیا میں اپنی انتہائی بیمار بچی کو جس کی جان خطرے میں ہے ، حاصل کرنے کا مطالبہ شرعاً کر سکتا ہوں؟
٢۔ کیا شریعت ان حالات میں جبکہ بچی کی ماں محض ملازمت کی خواہش کے لیے اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اپنے گھر کو چھوڑ کر چلی گئی ہے، بچی کے باپ کو کچھ ایسے خاص حقوق دیتی ہے جن کی بنا پر وہ اس صورت حال کو سنبھال سکے؟
٣۔ بچی کس کے پاس رہے گی، اس کیس کا فیصلہ شرعی قانون کے تحت کیا جائے گا یا دیوانی قانون کے تحت؟
٤۔ اس سارے قضیے میں آپ کی اپنی کیا راے ہے؟
جواب
پہلے میں آپ کے چوتھے سوال کا جواب دینا چاہوں گا اور وہ یہ کہ میرا آپ کو یہ مشورہ ہے کہ ان حالات میں آپ عذر معذرت کر کے اپنی اہلیہ کو ان کی سب شرائط قبول کرتے ہوئے گھرلے آئیں۔ اس جھگڑے کا بہترین حل یہی محسوس ہوتا ہے۔ اگر آپ عدالت کے ذریعے سے اپنی بچی حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی گئے تو اس کی پرورش کے لیے آپ کو کچھ اہتمام تو کرنا ہی ہو گا، وہی اہتمام آپ اس صورت میں کیوں نہیں کر لیتے، جبکہ آپ کی بیوی بے شک ملازمت کر لے، لیکن وہ اور آپ کی بیٹی دونوں آپ کے پاس ہوں۔ اس کیس میں آپ کی ہار ہی میں آپ کی جیت ہے۔ ہماری آپ سے یہ گزارش ہے کہ آپ اپنی بیٹی کی زندگی کی خاطر اس ہار والی جیت کو قبول کر لیں۔
آپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ اس خاص صورت حال میں اپنی بچی کو اپنے پاس رکھنے کا مطالبہ شرعاً کر سکتے ہیں، لیکن اس کا فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی اور وہ سارے حالات کو دیکھ کر کرے گی۔
آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جن حقوق کا مطالبہ آپ کر رہے ہیں، وہ حقوق آپ کو عقلاً حاصل ہیں اور شریعت بھی لازماً آپ کو وہ حقوق دے گی، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ آپ کی ساری بات عدالت میں صحیح ثابت ہوجائے۔
آپ کے تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ کے کیس کا فیصلہ فیملی لا کورٹ ہمارے ہاں رائج (اسلامی) قانون کے مطابق کرے گی۔
مجیب: Muhammad Rafi Mufti
اشاعت اول: 2015-06-27