تین بار طلاق

20

سوال

میں نے 30 مئی کو آٹھ گواہوں کے سامنے غصے کی حالت میں تین بار طلاق دے دی۔ میری بیوی اور اس کے گھر والے اب طلاق کو نہیں مانتے۔ 30 مئی سے وہ اب تک میرے گھررہ رہی ہے۔ اس کے گھر والے اس کو نہیں لے جارہے ہیں۔ ہمارا ایک سال کا بچا بھی ہے۔ اور وہ دو ماہ کی حاملہ بھی ہے۔ میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب

بنیادی بات یہ ہے کہ آپ نے قرآن مجید کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے اور طلاق اس کے سکھائے ہوئے طریقے کے خلاف دی ہے۔ قرآن مجید کا اصرار ہے کہ صرف ایک طلاق دی جائے۔ وہ عدت یعنی تین حیض تک طلاق واپس لینے کا اختیار مرد کو دیتا ہے اور عدت گزر جائے تب بھی مرد اور عورت دونوں کے پاس موقع ہوتا ہے کہ وہ آپس میں دوبارہ نکاح کر لیں۔ لیکن آپ نے ایک ہی موقع پر تین بار طلاق دے کر اس ہدایت کی نافرمانی کی ہے۔ آپ کو اس پر توبہ کرنی چاہیے۔

آپ کی مطلقہ شریعت کی رو سے عدت کے دوران آپ کے گھر میں رہیں گی اور حاملہ ہونے کی وجہ سے ان کی عدت بچے کی پیدایش تک ہے۔ اس عرصے میں آپ اپنے معیار کے مطابق اس کے رہن سہن کے ذمہ دار ہیں۔

رہا طلاق کا معاملہ تو وہ گواہوں اور حالات کے تجزیے کا متقاضی ہے۔ آپ کسی صاحب علم وفراست کو ثالث بنائیں۔ یہ ثالث آپ، آپ کی بیوی اور گواہوں کے بیانات لے۔ تمام فریق اس ثالث کے فیصلے کو ماننے کا اقرار کریں۔ اس کے بعد وہ ثالث یہ فیصلہ کرے کہ ایک طلاق وا‏قع ہوئی ہے یا کوئی طلاق ہی نہیں ہوئی ہے۔

ثالث جو بھی فیصلہ دے اگلا تمام معاملہ اس کے فیصلے پر منحصر ہے۔ اگر وہ ایک طلاق واقع کرتا ہے تو آپ رجوع کر سکتے ہیں اور اگر وہ طلاق واقع نہیں کرتا تو آپ اطمینان سے میاں بیوی کے طور پر رہ سکتے ہیں۔

مجیب: Talib Mohsin

اشاعت اول: 2015-07-12

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading