سوال
اگر کوئی مظلوم بے بسی کی وجہ سے اپنا بدلہ روز قیامت پر ڈال دے اور ظالم بعد میں کبھی اللہ کے حضور میں سچی توبہ کر لے تو کیا اس صورت میں ظلم کرنے والے کے ایسے گناہ بھی معاف ہو جائیں گے جن میں دوسرے لوگوں پر ظلم ہوا ہو ، کیونکہ اس صورت میں مظلوم قیامت کے دن بھی اپنا بدلہ نہیں لے پائے گا ؟
جواب
ایسے گناہوں کے معاملے میں ظالم کے سامنے دو فریق ہوتے ہیں : ایک اللہ اور دوسرا مظلوم ۔ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کی صورت میں اس کا امکان ہے کہ اللہ معاف فرما دیں گے ، کیونکہ وہ بہت غفورو رحیم ہیں۔ لیکن دوسرے فریق ، یعنی بندے کا معاف کرنا بھی ضروری ہے ۔ قیامت کے دن وہ اپنا مقدمہ لے کر کھڑا ہو سکتا ہے ۔ لہٰذا ایسے معاملات میں اللہ سے معافی مانگنے کے ساتھ مظلوم کی تلافی بھی ضروری ہے ۔ تلافی کے بغیر معافی بے معنی چیز ہے ۔ مراد یہ ہے کہ اگر کسی نے ظلم کیا ہے تو اسے مظلوم سے معذرت کرنا ہو گی ، اگر کسی نے زیادتی کی ہے تو اسے مظلوم سے معافی کی در خواست کرنا ہو گی۔ یہ چیز عقل عام اور دین و اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی کا حق مار کر اس پر قابض بھی رہیں اور ساتھ اللہ سے سچی توبہ کی دعائیں بھی کرتے رہیں ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آپ ایک بیوہ کا مکان ہتھیا لیں اور کہیں کہ میں رہوں گا تو اس میں ، لیکن سچے دل سے اللہ کے حضور معافی مانگتا ہوں ۔ یہ چیز قابل قبول نہیں ہے ۔
تاہم ، کسی معاملے میں اگر تلافی کی صورت ہی باقی نہ رہے، مثال کے طور پر مظلوم دنیا سے رخصت ہو گیا ہے تو اس صورت میں اللہ سے معافی مانگتے رہنا چاہیے ۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت میں معافی کی سفارش کر دیں اور وہ خدا کا بندہ اس وقت ظالم کو معاف کر دے۔
مجیب: Javed Ahmad Ghamidi
اشاعت اول: 2015-06-21