سوال
سورہ بقرہ میں بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ
‘فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَکُمْ’
(اپنے نفسوں کو قتل کرو)
ا س حکم کا کیا مطلب ہے؟
١۔ کیا اس سے خود کشی مراد ہے؟
٢۔ ایک دوسرے کو قتل کرنا مراد ہے؟
٣۔ نفس امارہ کو قتل کرنا، یعنی مجاہدہ نفس کرنا مراد ہے؟
حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس حکم کے بعد اسی سورہ کی اگلی آیات میں بنی اسرائیل پر یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ
‘ثُمَّ اَنْتُمْ ہٰۤؤُلَآءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَتُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْکُمْ’
(پھر یہ تمھی لوگ ہو جو اپنوں کو قتل کرتے ہو اور اپنے ہی ایک گروہ کو ان کی بستیوں سے نکالتے ہو)،
اس تضاد کی کیا وضاحت ہے؟
جواب
‘فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَکُمْ’ کی آیت ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کے گوسالہ پرستی کے جرم سے متعلق ہے۔ چنانچہ پہلی بات یہ ہے کہ بچھڑے کی پرستش بنی اسرائیل کے سارے لوگوں نے نہیں کی تھی، بلکہ ان میں سے ایک گروہ نے یہ مشرکانہ اقدام کیا تھا، جیسا کہ درج ذیل دو آیات سے پتا چلتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُہُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ. (الاعراف٧: ١٥٢)
”بے شک جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا ہے، انھیں عنقریب ان کے رب کی طرف سے غضب لاحق ہو گا۔”
اَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَہَآءُ مِنَّا.(الاعراف٧:١٥٥)
”(موسیٰ نے کہا) کیا تو ہمیں ایسے جرم کی پاداش میں ہلاک کر دے گا، جس کا ارتکاب ہمارے اندر کے بے وقوفوں نے کیا ہے۔”
دوسری بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل سے متعلق زیر بحث آیت کا پورا مضمون درج ذیل ہے :
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْۤا اِلٰی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَکُمْ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ عِنْدَ بَارِئِکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ اِنَّہ، ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ.(البقرہ٢:٥٤)
”اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم کے لوگو، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے تو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو اور خود اپنے (مجرموں) کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرو، یہ تمھارے لیے تمھارے پیدا کرنے والے کے نزدیک بہتر ہے۔”
اگر قرآن مجید کی اس بات کو ہم ملحوظ رکھیں کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے بچھڑے کی پرستش کا جرم کیا تھا تو پھر اس درج بالا آیت کا مطلب ہی یہ بنتا ہے کہ اے بنی اسرائیل، تم خود اپنے مجرموں کو قتل کرو۔
اور پھر مزید یہ بات بھی ہے کہ اگر ہم ‘فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَکُمْ’ میں ‘اَنْفُسَکُمْ’ سے ”اپنے مجرموں کو” کے بجاے ”تم سب اپنے آپ کو” مراد لیں تو پھر اس سزا میں نیک و بد اور صالح و مجرم، دونوں شامل ہو جاتے ہیں جو کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔
مجیب: Muhammad Rafi Mufti
اشاعت اول: 2015-07-04