سوال
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے قرآن مجید میں ‘مُتَوَفِّيْكَ’ کا لفظ آیا ہے ، اس کے حوالے سے میں آپ کی راے جاننا چاہتا ہوں۔ آپ اس کا ترجمہ باقی لوگوں سے مختلف کیوں کرتے ہیں؟
جواب
قرآن مجید کی سورۂ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِذْ قَالَ اللهُ يٰعِيْسٰۤی اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْۤا اِلٰی يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَيْنَکُمْ فِيْمَا کُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ. (3: 55)
استاد محترم نے اس کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے:
”اُس وقت، جب اللہ نے کہا: اے عیسیٰ، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھالوں گا اور (تیرے) اِن منکروں سے تجھے پاک کروں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت کے دن تک اِن منکروں پر غالب رکھوں گا۔ پھر تم سب کو بالآخر میرے پاس آنا ہے۔ سو اُس وقت میں تمھارے درمیان اُن چیزوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔” (ماہنامہ اشراق، فروری 2005ء، ص 10۔11)
سوال کے حوالے سے آیت کے متعلقہ حصے کے معنی واضح کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے:
”یعنی روح قبض کرکے تیرا جسم بھی اپنی طرف اٹھا لوں گا تا کہ یہ ظالم اس کی توہین نہ کر سکیں۔ مسیح علیہ السلام اللہ کے رسول تھے اور رسولوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون قرآن میں بیان ہوا ہے کہ اللہ ان کی حفاظت کرتا ہے اور جب تک ان کا مشن پورا نہ ہو جائے، ان کے دشمن ہر گز ان کو کوئی نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ اسی طرح ان کی توہین و تذلیل بھی اللہ تعالیٰ گوارا نہیں کرتے اور جو لوگ اس کے درپے ہوں، انھیں ایک خاص حد تک مہلت دینے کے بعد اپنے رسولوں کو لازماً ان کی دستبرد سے محفوظ کر دیتے ہیں۔” (ماہنامہ اشراق، فروری 2005ء، ص 10)
یہاں سوال یہ ہے کہ توفی اور رفع سے کیا مراد ہے۔ رفع سے مراد آپ علیہ السلام کے جسم کو اوپر اٹھانا ہے۔ اس میں عام طور پر مفسرین کا اتفاق ہے۔ توفی کے بارے میں ابن جریر نے درج ذیل آرا نقل کی ہیں:
نیند طاری کر دینا مراد ہے اور اسی نیند کی حالت میں اوپر اٹھا لیا گیا۔
قبض کر لینا معنی ہیں، لیکن اس سے موت مراد نہیں ہے۔ یہ اس معنی میں ہے، جیسے زمین سے کوئی چیز ہاتھ میں پکڑ کر اٹھا لیتے ہیں۔
کچھ لوگوں کی راے میں توفی اور رفع مترادف استعمال ہوئے ہیں۔
ابن عباس کی راے انھوں نے یہ نقل کی ہے کہ ‘مُتَوَفِّيْكَ’کے معنی ‘مُمِيْتكَ’ کے ہیں۔ یہ وہی ترجمہ ہے جو استاد محترم نے کیا ہے۔ بعض کی راے یہ ہے کہ یہ وفات تین ساعت کے لیے ہوئی تھی اور بعض کی راے میں سات ساعت کے لیے وفات ہوئی تھی اور اس کے بعد زندہ کرکے آپ کو اوپر اٹھا لیا گیا تھا۔
کچھ لوگوں کی راے یہ ہے کہ ‘مُتَوَفِّيْكَ’کا عمل حضرت عیسیٰ کے دنیا میں دوبارہ آنے کے بعد ہو گا۔ ابھی رفع کا عمل ہوا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس آیت کے ایک ہی معنی کیے گئے ہیں۔ قدیم سے اس کے بارے میں مختلف آرا رہی ہیں۔ ابن جریر تیسری صدی ہجری کے مصنف ہیں۔ ان کے زمانے میں علما یہ سب معنی بیان کر رہے تھے۔ یہ بات درست ہے کہ قبول عام قبض کر لینے کے معنی کو حاصل ہوا ہے۔
توفی کا لفظ اردو کے لفظ انتقال کی طرح فرد کے لیے وفات دینے ہی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس لفظ کی مختلف توجیہات کرنی پڑی ہیں۔ ان توجیہات کی ضرورت صرف اس لیے پیش آرہی ہے کہ حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی خبر بعض روایات میں دی گئی ہے۔
کسی آیت اور کسی روایت میں صریح الفاظ میں حضرت مسیح کے زندہ اٹھا لیے جانے کا ذکر نہیں ہے۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-07-29