دوسری شادی

17

سوال

تعدد ازواج سے متعلق میں چند سوال عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میرا پہلا سوال سورہ نساء کی آیات ۳۔۴ سے متعلق ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب اور امین احسن اصلاحی صاحب نے مذکورہ آیات کے ترجمہ میں لفظ “ان کی مائیں” شامل کیا ہے جب کہ باقی مترجمین و مفسرین کے متراجم میں دوسری عورتیں کہا گیا ہے۔ وضاحت فرمائیں۔

اسی ضمن میں میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی شخص صرف اس بنیاد پر دوسری شادی کر سکتا ہے کہ وہ کسی دوسری عورت سے محبت کرتا ہے؟یا اگر وہ اچھی خاصی مالیت رکھتا ہو تو اس بنیاد پر وہ دوسری شادی کر سکتا ہے یہ سوچ کر کہ وہ دونوں بیویوں کا حق آسانی سے ادا کر سکتا ہے؟

نمبر ۳ یہ کہ میں نے غامدی صاحب کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تنوع کے لیے دوسری بیوی رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ یہاں لفظ “تنوع” سے کیا مراد ہے؟ اور ساتھ میں اس حدیث کا بھی حوالہ دیا جائے جس میں یہ بات فرمائی گئی ہے۔

نمبر ۴ یہ کہ اگر کسی شخص کی پہلی بیوی اور بچے اس کی دوسری شادی کے خلاف ہوں، تو کیا پھر بھی اس شخص کو، جیسے کہ قرآن میں رہنمائی فرمائی گئی ہے اس کے مطابق دوسری شادی کر لینی چاہیے؟ آپ کی اس بارے میں ذاتی رائے کیا ہے؟

نمبر ۵ یہ کہ انسان اپنی پہلی بیوی اور بچوں کو اس معاملے کی پیچیدگی کو سمجھانے کے لیے کیا اقدامات کرے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیے۔

جواب

تعدد ازواج سے متعلق آپ کے سوال کے ضمن میں، میرا نقطہ نظر حسب ذیل ہے:

شق نمبر ١:

مولانا اصلاحی نے ‘النساء’ کا مصداق ماؤں کو غالباً اس بنیاد پر قرار دیا ہے کہ متعلقہ آیات میں دراصل یتیم بچوں کی کفالت اور نگہداشت اور ان کے اموال کی حفاظت کا مسئلہ زیر بحث ہے اور اس تناظر میں دو دو، تین تین یا چار چار اجنبی خواتین سے نکاح کرنے کے بجائے خود ان یتیموں کی خواتین کو حبالہ نکاح میں لے آنے کی ہدایت زیادہ بامعنی اور قرین قیاس دکھائی دیتی ہے۔ چونکہ شہید ہونے والے مردوں کے بچو ں کے یتیم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی مائیں بھی بیوہ ہو گئی تھیں، اس لیے مولانا کے نزدیک قرآن نے اس ہدایت سے ان دونوں مسئلوں کا حل تجویز کیا ہے۔ بظاہر اس کے حق میں ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ قرآن نے اگلی آیت میں ان خواتین کو ان کا مہر پورا پورا ادا کرنے کی ہدایت کی ہے جو اس صورت میں زیادہ برمحل لگتی ہے جب یتیموں ہی کی خواتین مراد ہوں، کیونکہ اس کا امکان تھا کہ ان خواتین سے چونکہ اصلاً احسان کے جذبے سے نکاح کیا جا رہا ہے، اس لیے ان کا حق مہر انھیں ادا نہ کیا جائے اور خواتین بھی اس خاص صورت حال میں اس کو قبول کر لیں۔ اگر یہ اجنبی خواتین ہوں تو ان کے لیے ایسی کوئی مجبوری دکھائی نہیں دیتی جو انھیں اپنی حق تلفی قبول کرنے پر مجبور کرے۔ واللہ اعلم

شق نمبر ٣:

ایسی کوئی روایت میری نظر سے نہیں گزری جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ”تنوع” کی غرض سے دوسری شادی سے منع کیا ہو۔

شق نمبر ٢، ٤، ٥:

ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا رواج دنیا کے بیشتر معاشروں میں قدیم ترین دور سے موجود ہے اور اس کے پیچھے متنوع نفسیاتی اور سماجی محرکات کار فرما رہے ہیں۔ اسلام سمیت دنیا کے کم وبیش تمام بڑے مذاہب میں اس کو فی نفسہ ایک جائز رواج مانا گیا ہے۔ تاہم انسانی ونسوانی حقوق کا جدید مغربی تصور اس کو ایک ناپسندیدہ اور غیر منصفانہ سماجی عمل قرار دیتا ہے اور اپنے معاشرتی قوانین میں اس کے لیے کوئی گنجایش تسلیم نہیں کرتا۔ اس ضمن میں مغرب کے زاویہ فکر اور اسلام کے نقطہ نظر میں ایک جوہری فرق ہے۔ مغرب میں ایک سے زائد شادیوں پر پابندی کا قانون مرد وزن کے مابین مساوات اور برابری کے ایک خاص تصور پر مبنی ہے۔ چونکہ عورت کو ایک وقت میں ایک سے زیادہ شوہروں سے شادی کی اجازت دینا خود خاندان کے ادارے کی نفی کرنے اور اس کی بنیاد ڈھا دینے کے مترادف ہے، اس لیے مغربی فلسفہ قانون اس پابندی کو ایک معقول پابندی تسلیم کرتا ہے، تاہم مساوات کے اپنے مخصوص تصور کے تحت وہ مرد کو بھی اس پابندی کے دائرے میں لانے پر مجبور ہے۔ اسلام کے پیش نظر چونکہ مساوات مرد وزن کا اس طرح کا کوئی تصور نہیں، بلکہ خاندان کے ادارے کی بقا اور اس کی حفاظت ہے، اس وجہ سے وہ عورت کو تو اس کا پابند ٹھہراتا ہے، لیکن مرد پر اس طرح کی کوئی اصولی پابندی عائد نہیں کرتا۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام اس معاملے میں مرد پر کسی قسم کی کوئی اخلاقی پابندی عائد نہیں کرتا یا مختلف محرکات اور داعیات کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہوئے سب کو دوسری شادی کے لیے درست وجہ جواز تسلیم کر لیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اس وجہ سے دوسری شادی کرنا چاہتا ہے کہ اسے اپنی پہلی بیوی ناپسند ہے تو اسے قرآن مجید کی یہ ہدایت یاد رکھنی چاہیے کہ ”اگر تمھیں اپنی بیویاں ناپسند ہوں تو (انھیں چھوڑو نہیں بلکہ ان کے ساتھ نباہ کرو) کیونکہ اس بات کی بڑی امید ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کر رہے ہو جبکہ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے اس میں بہت بڑی خیر پیدا کر دے۔” (سورہ نساء) اسی طرح اگر دوسری شادی کا محرک یہ ہے کہ مرد کو اپنی بیوی کے علاوہ کوئی اور خاتون بھی پسند آ گئی ہے تو اسے اپنی پہلی بیوی کے ساتھ کیے گئے عہد وپیمان کو یاد کرنا چاہیے، اور اس حقیقت کو سامنے رکھنا چاہیے کہ یہ دنیا اپنے جی کے ارمان نکالنے کے لیے نہیں، بلکہ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ دوسری شادی کے بعض محرکات درست اور قابل فہم بھی ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اولاد کا حصول اور اپنی نسل کی بقا ہر انسان کی فطری خواہش بھی ہے اور اس کا حق بھی۔ اگر خدا نخواستہ پہلی بیوی اولاد کے قابل نہیں ہے تو خاوند دوسری شادی کے لیے ایک معقول وجہ جواز اپنے پاس رکھتا ہے۔ تاہم اس صورت میں بھی اگر وہ اپنے آپ کو اپنی بیوی کی جگہ پر رکھ کر دیکھے اور یہ تصور کرے کہ اولاد کے قابل نہ ہونے کی صورت اس کے برعکس خاوند کے ساتھ بھی ہو سکتی تھی تو یہ احساس یقینا اس کے اندر ایثار اور قربانی کے جذبے کو پیدا کرے گا۔

اسلام کی رو سے کسی جائز اور معقول وجہ سے دوسری شادی کرنے کی صورت میں بھی دو بنیادی اخلاقی پابندیاں خاوند پر لازماً عائد ہوتی ہیں:

ایک یہ کہ اگر پہلی بیوی نے شادی ہی اس شرط پر کی ہو کہ خاوند اس کے بعد دوسری شادی نہیں کرے گا تو خاوند اس طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ عورت چونکہ طبعی طور پر خاوند کی طرف سے مکمل توجہ اور وفاداری کی خواہش مند ہوتی ہے اور اس کے ساتھ محبت کے جذبات میں کسی شراکت کو نفسیاتی طور پر قبول نہیں کرتی، اس لیے اس کے زاویہ نگاہ سے اس طرح کی کوئی شرط عائد کرنا اس کا فطری حق ہے۔ اگر نکاح کے وقت یہ شرط خاوند نے تسلیم کر لی ہے تو اس کے بعد وہ اس کو نبھانے کا شرعی واخلاقی طور پر پابند ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شرطیں پورا کیے جانے کا سب سے زیادہ حق رکھتی ہیں، وہ ایسی شرطیں ہیں جو شوہروں نے نکاح کرتے وقت بیویوں کے لیے تسلیم کی ہوں۔

دوسری یہ کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی صورت میں خاوند کو عدل وانصاف کا دامن ہر حال میں تھامے رکھنا ہوگا اور تمام بیویوں کے جملہ حقوق کی ادائیگی بالکل برابری کے ساتھ کرنا ہوگی۔ قرآن مجید نے سورئہ نساء میں چار تک عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت اس واضح شرط کے ساتھ دی ہے کہ خاوند کو یہ یقین ہو کہ وہ عدل وانصاف کے طریقے پر قائم رہ سکے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تمھیں یہ خدشہ ہو کہ تمھارے لیے عدل پر قائم رہنا ممکن نہیں رہے گا تو پھر ایک ہی شادی پر اکتفا کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنی بیویوں کے مابین انصاف سے کام نہ لے، قیامت کے دن وہ اس حالت میں پیش ہوگا کہ اس کی ناانصافی کی علامت کے طور اس کے بدن کا ایک پہلو ٹیڑھا ہوگا۔

اس معاملے کا خاص قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ اسلام میں ایک سے زیادہ شادیوں کا ‘حکم’ نہیں بلکہ محض اجازت دی گئی ہے اور یہ اجازت بھی، جیسا کہ بیان ہوا، بعض شرائط کے ساتھ مشروط ہے جن میں سے بنیادی شرط عدل وانصاف اور حقوق کی ادائیگی ہے۔ یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے والے مرد اس بنیادی شرط کوپورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں اگر پہلی بیوی کے حقوق کے تحفظ کے لیے دوسری شادی کے حق کو بعض قانونی حدود وقیود کا پابند کر دیا جائے یا اس کو عدالتی اجازت یا توثیق سے مشروط کر دیا جائے تو ایسا کرنا شریعت کے کسی حکم کے منافی نہیں بلکہ شریعت کے مقاصد اور اس کے پیش نظر مصالح کے مطابق ہوگا۔

مجیب: Ammar Khan Nasir

اشاعت اول: 2015-10-11

محمد عمار خان ناصر
WRITTEN BY

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر 10 دسمبر 1975ء کو گوجرانوالہ کے قصبہ گکھڑ منڈی میں ملک کے ایک معروف دینی و علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا مولانا محمد سرفراز خان صفدر کو دیوبندی مسلک کا علمی ترجمان سمجھا جاتا ہے جبکہ ان کے والد مولانا زاہد الراشدی جن کا اصل نام عبد المتین خان زاہد ہے ایک نہایت متوازن رویہ رکھنے والے مذہبی اسکالر اور دانش ور کے طور پر معروف ہیں۔

1989ء سے 2000ء تک الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے مجلہ ماہنامہ الشریعہ کے معاون مدیر رہے اور بعد میں اس کے باقاعدہ مدیر کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔

عمار خان ناصر، 1990ء کے لگ بھگ جاوید احمد غامدی سے متعارف ہوئے اور غیر رسمی استفادے کا سلسلہ 2003ء تک جاری رہا۔ جنوری 2004ء میں المورد سے باقاعدہ وابستہ ہوئے اور 2010ء تک کے دورانیے میں "جہاد۔ ایک مطالعہ" اور "حدود وتعزیرات۔ چند اہم مباحث" کے زیرعنوان دو تصانیف سپرد قلم کیں۔ ان دنوں المورد کے ریسرچ فیلو کے طور پر جاوید احمد غامدی کی کتاب میزان کا توضیحی مطالعہ ان کے زیرتصنیف ہے۔

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading