سوال
کیا غیر مسلم کو سلام کیا جا سکتا ہے؟
جواب
ہمارے دین میں باہم ملاقات کے موقع پر آداب پیش کرنے کے بجاے ملاقاتی کے لیے دعا کا ایک کلمہ مقرر کیا گیا ہے۔ اس پہلو سے یہ ایک شعار (علامت) بھی بن جاتا ہے ، یعنی مسلمان جب ملتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کے لیے سلامتی کی دعا کے لیے مقرر ایک خاص جملہ بولتے ہیں۔ اس جملے کی معنوی حقیقت یہ ہے کہ ہر مسلمان دوسرے کا خیرخواہ اور اس کی بھلائی کے لیے دعا گو ہے۔
غیر مسلموں کے ساتھ ہمارے تعلق کی دو نوعیتیں ہیں: ایک یہ کہ کسی غیر مسلم گروہ کے ساتھ ہم برسر جنگ ہوں۔ دوسری یہ کہ ہمارے اور ان کے مابین معمول کے تعلقات قائم ہوں۔ پہلی صورت میں کسی عام آدمی کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ان کے ساتھ اپنے دین کے تقاضے کو نظر انداز کرتے ہوئے دوستی اور ہمدردی کا رویہ رکھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ پہنچے تو یہود کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کیے گئے تھے ، لیکن یہود کی دشمنی کے باعث مسلمانوں کو قرآن مجید میں ان سے دوستی کے تعلقات رکھنے سے منع کر دیا گیا تھا۔ قرآن مجید کی ان تعلیمات کی سختی کو دیکھتے ہوئے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ شاید غیر مسلموں کے ساتھ ہمدردی اور دوستی کا رویہ بالکلیہ غیر مطلوب ہے ، یہ خیال درست نہیں ہے۔ قوموں کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے ادوار آتے رہتے ہیں۔ عام حالات میں کاروباری اور سماجی روابط میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر آپ دل میں یہ خواہش رکھتے ہوں کہ آپ کا غیر مسلم ملاقاتی خدا کی رحمت پانے کا اہل بن جائے تو سلامتی کی دعا کرنے میں حرج نہیں ہے۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-08-03