سوال
لونڈیوں کے خاتمے کی فوری یا بتدریج کوئی حد کیوں مقرر نہیں کی گئی۔ کوئی برائی اتنی دیر تک برداشت نہیں کی جا سکتی کہ تیرا چودہ سوسال جاری رہے۔
جواب
قرآن مجید میں نئے لونڈی اور غلام بنانے کی اجازت ختم کر دی گئی اور پرانے غلاموں کی آزادی کے لیے مکاتبت کا طریقہ رائج کر دیا۔غلام آزاد کرنے کو ایک بڑی نیکی قرار دیاگیا۔ کئی گناہوں کے ضمن میں غلام آزاد کرنے کو کفارہ قرار دیاگیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلنا چاہیے تھا کہ غلاموں کی وہ نسل ختم ہوتے ہی غلامی ختم ہو جاتی ۔ لیکن معاملہ صرف اسلامی دنیا ہی کا نہیں تھا۔ ساری دنیا میں غلام بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔ غلاموں کی نسلیں بھی اسی طرح غلامی قبول کیے رہیں۔ قرآن مجید کے احکامات نے اصل میں غلامی کا دروازہ ہی بند کر دیا تھا ۔یہ خارجی حالات ہیں جن کے باعث یہ مکروہ کاروبار جاری رہا۔
قرآن مجید نے موجود غلاموں کو بیک قلم آزاد اس لیے نہیں کیا کہ ہزاروں اور سینکڑوں لوگوں کی زندگیوں کا معاملہ تھا۔ یہ آزادی ان لوگوں کے لیے رحمت کے بجائے شدید اذیت اور زحمت کا باعث ہوتی۔آپ کی یہ خواہش کہ غلامی کے خاتمے کا کوئی وقت مقرر ہونا چاہیے تھا ایک نیک خواہش ضرور ہے۔ لیکن جس معاشی سیٹ اپ کا سارا انحصار غلامی کے ادارے پر ہواور آزادی کی صورت میں غلاموں کے لیے باعزت معیشت کی کوئی صورت موجود نہ ہو وہاں سیٹ اپ تبدیل کیے بغیر غلاموں کو آزادی دے دیناہزاروں لوگوں کو بے موت مار دینے کے مترادف ہے۔ اصل میں یہ مسلمان حکمرانوں کی غلطی ہے کہ وہ قرآن کی روح کو نہیں سمجھے اور جب وہ اس پوزیشن میں آئے کہ بین الاقوامی سطح پر اس مکروہ کاروبار کے سد باب کے لیے اقدامات کریں تو وہ اس کے شعور ہی سے عاری تھے۔آپ نے یقینا پڑھا ہو گا کہ ابراہیم لنکن کو غلامی کو عملاً ختم کرنے کے لیے جنگیں بھی لڑنی پڑی ہیں۔ یہ سعادت اگر مسلمان حاصل کرتے تو بہت اچھا ہوتا۔ اس سماجی برائی کی درستی کی جو راہ قرآن نے متعین کی تھی غلامی کا خاتمہ اس کا یقینی نتیجہ تھا۔ لیکن عباسی اور عثمانی حکمران قرآن کے اس منشا سے آگاہ ہی نہیں تھے تو غلامی کیسے ختم ہوتی۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-09-08