نصاب زکوٰۃ میں تبدیلی کا حق

26

سوال

کیا ریاست زکوٰۃ کے نصاب میں تبدیلی کر سکتی ہے؟

جواب

استاد محترم غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق زکوٰۃ کے نصاب میں ریاست اجتہاد کر سکتی ہے۔ لہٰذا ریاست جو نصاب بھی طے کر دے گی، اس سے کم مال یا پیداوار پر زکوٰۃ عائد نہیں ہو گی۔ وہ اپنی کتاب ”میزان”کے باب ”قانون عبادات” میں زکوٰۃ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

”… ریاست اگر چاہے توحالات کی رعایت سے کسی چیزکوزکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دے سکتی اورجن چیزوں سے زکوٰۃ وصول کرے ، اُن کے لیے عام دستور کے مطابق کوئی نصاب بھی مقرر کرسکتی ہے۔ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی مقصد سے گھوڑوں اورغلاموں کی زکوٰۃ نہیں لی اور مال ، مواشی اورزرعی پیداوار میںاُس کا نصاب مقرر فرمایا ۔یہ نصاب درج ذیل ہے : مال میں 5 اوقیہ /642 گرام چاندی
پیداوار میں 5 وسق/653 کلو گرام کھجور
مواشی میں 5 اونٹ ، 30 گائیں اور 40 بکریاں ۔آپ کا ارشادہے : ‘قد عفوت عن الخیل والرقیق'(میں نے گھوڑوں اورغلاموں کی زکوٰۃ معاف کردی ہے )۔اِسی طرح فرمایا ہے:
ليس فيما دون خمسة اوسق من التمر صدقة ، وليس فيما دون خمس اواق من الورق صدقة ، وليس فيما دون خمس ذود من الابل صدقة. (موطا ، رقم 683)
5 وسق سے کم کھجور میں کوئی زکوٰۃنہیں ہے، 5 اوقیہ سے کم چاندی میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے اور 5 سے کم اونٹوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے ۔”( ص 353)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ واضح طور پر یہ بتا رہے ہیں کہ یہ نصاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا رسول ہونے کی حیثیتسے نہیں، بلکہ عرب کی ریاست کا فرماں روا ہونے کی حیثیت سے مقرر فرمایا تھا، چنانچہ اگر ریاست محسوس کرے تو وہ اس میں تبدیلی کر سکتی ہے۔

مجیب: Muhammad Rafi Mufti

اشاعت اول: 2015-07-08

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading