سوال
انسانی زندگی کے وہ معاملات جو معاش اور دوسری سہولتوں سے متعلق ہیں، ان میں تقدیر کا حصہ کتنا ہے؟
جواب
اصلاً یہ دنیا تدبیر پر چل رہی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت تدبیر کے نتائج پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ کسی تدبیر کی کامیابی اور ناکامی میں ایک حصہ تدبیر کے حسن وقبح کا ہے اور اصل چیز خدا کی تائید یا عدم تائید ہے۔ کھیتی کی مثال دیکھیے، اگر کسان ہل نہیں جوتے گا، بیج نہیں ڈالے گااور اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرے گا تو کوئی پیداوار نہیں آئے گی، لیکن جب وہ یہ سب کچھ کر لیتا ہے تو یہ سب مل کر بھی کھیتی کی کامیابی کے لیے کافی نہیں ہے۔ کسان کی تدبیر کے دائرے سے باہر کے امکانات کی موافقت بھی ضروری ہے۔مثلاً موسم اور دوسری آفات کا نہ ہونا۔ چنانچہ صحیح تدبیر کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہی سے کامیابی کی راہ کھلتی ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی ناکامی پیش آئے تو دونوں چیزوں کا جائزہ لینا چاہیے: ایک یہ کہ تدبیر میں کیا کمی رہ گئی تھی اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کو کیا آزمایش کرنا پیش نظر تھی۔ ہم اگرچہ پوری طرح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے کہ کسی عمل کے جو نتائج نکلے ہیں، ان میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں، لیکن اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ہم مایوسی اور بے ہمتی کا شکار ہونے کے بجاے نئے عزم سے اور بہتر تدبیر کے ساتھ نئی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔
باقی رہا تقدیر کا معاملہ تو رزق کے معاملے میں قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو کم اور کسی کو بے حساب رزق دیتے ہیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کسی حکمت ہی کے پیش نظر کرتے ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم صحیح تدبیر کریں، اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی اور توکل کے تعلق کو قائم رکھیں اور جو کچھ نتائج نکلیں کامیابی کی صورت میں اسے شکر کی آزمایش سمجھیں اور ناکامی کی صورت میں اسے صبر کی آزمایش کے طور پر دیکھیں۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-08-06